• صارفین کی تعداد :
  • 2875
  • 1/29/2011
  • تاريخ :

امامت کے عام معنی (حصّہ هشتم)

بسم الله الرحمن الرحیم

حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے وقت موجودہ قرائن سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وصیت فرمائی اور اپنی میراث کو لاوارث نھیں چھوڑا تاکہ وہ زمانہ کے حوادث و بلاء میں گرفتار نہ هوجائے۔

وہ اسلام جس نے دنیا کے تمام مسائل میں احکام وقواعد معین کئے ھیں انسان کی زندگی کے ھر پھلو پر نظر رکھی هو؛ خرید وفروخت هو یا حوالہ و کفالہ، اجارہ و وکالت هو یا مزارعہ و مساقاة، قرض و رہن هو یا نکاح و طلاق، صید و ذباحہ هو یا اطعمہ و اشربہ اور چاھے حدود و دیات هو یا دیگر مسائل ، جب ان سب کو بیان کردیا تو کیا وہ اس اھم مسئلہ امامت کو نھیں بیان کرے گا؟!

 کیونکہ مسئلہ امامت اتنا اھم ھے جس کے ذریعہ امت اسلامی کی قیادت اور رھبری هوتی ھے اور جس چیز کا آغاز خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ھے اس کو پایہ تکمیل تک پهونچانا ھے۔

وہ اسلام جو اپنے احکام میں عدالت ومساوات اورمسلمانوں کے لئے اطمینان کا خیال رکھتا ھے جو ھر خوف سے امان دیتا ھے اور انسان کے اعضاء وجوارح کو ایسی طاقت عطا کردیتا ھے جس سے خیانت، فتنہ وفساد او ربرائیوں سے اپنے نفس کو روک لیتا ھے تو کیا اسلام بغیر امام کے اس عظیم ہدف تک پهونچ سکتا ھے؟!!

 کیونکہ امام کی لوگوں کو گمراھی سے نجات دینے ولاتا ھے اور بے عدالتی کو ختم کرتاھے کیونکہ بے عدالتی سے حاکم فاسد هو جاتا ھے اور حاکم کے فاسد هونے سے انسانی نظام اوردین فاسد هوجاتا ھے لہٰذا ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے امام کی ضرورت ھے جس میں تمام صفاتِ کمال موجود هوں، ھر برائی سے پاک وپاکیزہ هو، او راپنے قول وفعل میں ھر طرح کی خطا وغلطی سے محفوظ هو، ھم اسی چیز کو عصمت کہتے ھیں۔

 یہ بات واضح ھے کہ ان تمام صفات کے حامل شخص کا انتخاب هونا ضروری ھے جو کسی معمولی شخص میں جمع نھیں هوسکتیں، تو پھر نبی کے لئے ضروری ھے کہ وہ امت کے سامنے اس منصب کے بارے میں بیان دے، اور صاف طور پر لوگوں کو بتائے کہ میرے بعد فلاں امام ھے۔

اور یہ عصمت جس کے بارے میں ھم نے اشارہ کیا کوئی عجیب چیز نھیں ھے جیسا کہ بعض اسلامی فرقوں خصوصاً یورپی موٴلفین کا عقیدہ ھے بلکہ یہ تو حاکم کے شرائط میں سے ایک اھم شرط ھے ،اور وہ بھی ایسا حاکم جس کا کام قرآن کی تفسیر کرنا اور اسلام کے غیر واضح مسائل کی شرح کرنا ھے، کیونکہ عصمت کے معنی عرب میں ”منع“ کے ھیں

اور اصطلاح میںیھی معنی مراد لئے جاتے ھیں یعنی عصمت ایک نفسانی ملکہ (قوت) ھے جو انسان کو فعلِ معصیت اور ترک طاعت سے منع کرے اور اس کی عقل وشعور پر احاطہ رکھے تاکہ اس کو ھر طرح هوشیار رکھے اور اس سے کوئی بھول چوک نہ هو اور اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ هو جس سے خدا ناراض هو۔ کیونکہ معصیت کا مرتکب قرآنی اصطلاح میں ظالم هوتاھے:

<وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاٴُوْلٓئِکَ ہُمُ الظَّاْلِمُوْنَ>

”اور جو خدا کی مقرر کی هوئی حدوں سے آگے بڑھتے ھےںوھی لوگ تو ظالم ھیں“

<وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ>

”اور جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا)

<ہٰوٴُلٓاءِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا عَلٰی رَبِّہِمْ اٴَلاٰ لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ>

”یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ (بہتان) باندھا، سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی پھٹکار ھے“

<ثُمَّ نُنْجِیَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّاْلِمِیْنَ فِیْہَا جَثِیًّا>

”پھر ھم پرھیزگاروں کو بچائیں گے اور نافرمانوں کو اس میں چھوڑ دیں گے“

اسی طرح قرآن مجید میں دیگر مقامات پر اس مضمون کی آیات موجود ھیں۔

اور یہ عاصی (گناہگار) جس کو قرآن مجید نے ”ظالم“ کھا ھے اس کو کوئی بھی شرعی ذمہ داری جو دین وشریعت اور خداوندعالم سے متعلق هو؛ نھیں دی جا سکتی، اور اس بات پر قرآن مجید نے واضح طور پر بیان دیا ھے، ارشاد خداوند عالم هوتا ھے:

<وَاِذِبْتَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّہُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ قَالَ لاٰ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ>

”(اے رسول اس وقت کو یاد کرو) جب ابراھیم کو ان کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا اور (جب) انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا (امام) بنانے والا هوں (جناب ابراھیم نے عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی، فرمایا (ھاں مگر) میرا یہ عہدہ ظالمین تک نھیں پهونچ سکتا“

اس آیت کی تفسیر میں فخر رازی صاحب کہتے ھیں:

”یہ بات ثابت ھے کہ اس عہد سے مراد امامت ھے کیونکہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ کوئی فاسق شخص امام نھیں هوسکتا، تو بدرجہ اولیٰ رسول نہ فاسق هوسکتا ھے او رنہ ھی گناہ اور معصیت کرسکتا ھے۔

 اسی طرح یہ بات بھی واضح ھے کہ ”عصمت“ کے معنی اور شرائط امامت، عجیب وغریب نھیں ھیں بلکہ یہ وہ معنی ھیں جس کے ذریعہ شرعی نصوص اور روحِ دین مکمل هوتی ھے۔

چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی مسئلہ ”عصمت“ پر شیعوں کے عقیدہ پر حاشیہ لگاتے هوئے کہتے ھیں:

”تمام سیاسی فلاسفہ جس وقت کسی حکومت کی بڑی ریاست کی بات کرتے ھیں یا کسی دوسرے بڑے عہدے کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ھیں تو اس کو شبھات واعتراضات سے بالاتر قرار دیتے ھیں ، اسی طرح وہ سیاسی فلاسفہ جو ”ڈکٹیٹری“ (Dictatory) اور کسی حکومت میں حاکم کی سب سے بڑی ریاست کے قائل ھیں وہ اس کے لئے بھی عصمت کے قائل ھیں اگرچہ دوسرے صفات بھی اس میں ضروری مانتے ھیں۔

اسی طرح ”ڈیموکراسی“ (Democracy) کے فلاسفہ بھی اس کے شعبوں اور قواعد وقوانین میں عصمت کے قائل ھیں اور کہتے ھیں کہ ”ان تمام ریاستوں کے لئے عصمت کا هونا ضروری ھے تاکہ ان کا نظام قائم هو اور ان کے ماتحت افراد ان کی تائید کریں“

”تمام سیاسی نظام میں باوجودِ اختلاف ایک ایسی ریاست کا وجود هوتا ھے جس میں تمام احکام میں اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ھے اورکسی بھی فرد کو حاکم یا قانون گذار نھیں بنایا جا سکتا ھے جب تک کہ اس میں قداست اور عصمت نہ پائی جائے لہٰذا صرف شیعہ ھی عصمت کے قائل نھیں ھیں جس سے کسی شخص کو تعجب هو، اگرچہ شیعہ حضرات نے ھی عصمت کے بارے میں بحث شروع  کی ھے لیکن وہ اس نظریہ میں تنھا نھیں ھیں بلکہ دوسرے افراد بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں“

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امامت کے عام معنی

امامت کے عام معنی ( دوسرا حصّہ)

امامت کے عام معنی ( تیسرا حصّہ)

امامت کے عام معنی (  حصّہ چهارم)

امامت، قرآن و حدیث کی روشنی میں