حقیقت عصمت (حصّہ سوّم)
قارئین کرام ! اگر مذکورہ آیہ مبارکہ کے معنی بعض کج فکر لوگوں کی طرح کریں کہ ذنب سے مراد بذات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گناہ ھیں تو پھر اس فتح کے بعد غفران وبخشش کوئی معنی نھیں رکھتے، کیونکہ اس بخشش کے سوا اس کے اور کوئی معنی نھیں هوتے کہ فتح کے بعد ان لوگوں کے گناہ بخش دئے جائیں جنھوں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں بے ادبی کی، ان لوگوں کے وطن کو لشکر نبوی کے ذریعہ فتح کرائے او ران کے جاھلیت کے زمانہ کو ختم کر دے۔
دوسری آیت:
”اے رسول اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص (زید) سے کہہ رھے تھے جس پر خدا نے احسان (الگ)کیا اور تم نے اس پر (الگ)احسان کیا ،(جناب زید کو حکم هوتا ھے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو، غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (طلاق دیدی) تو ھم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا“
جیسا کہ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ھے کہ اس آیہ کریمہ میں رسول اسلام کی سرزنش اور ملامت کی گئی ھے کیونکہ وہ لوگوں کی قیل وقال سے خوف زدہ تھے۔
جواب:
جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ یہ آیہ کریمہ زید بن حارثہ اور ان کی زوجہ جناب زینب بنت جحش کے بارے میں ھے او رھم نے چند صفحے قبل اس بارے میں تفصیل بیان کی ھے جس کے مطالعہ کے بعد قارئین کرام آیت کے سیاق وسباق سے اچھی طرح آگاہ ھیں چنانچہ آپ حضرات اس آیت کے ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں پاتے۔
بشکریہ صادقین ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں :
محسوس فطریات
انسانی امتیازات
مقدس میلانات
نیکی اور بدی کی تعریف
اصالتِ روح (حصّہ دهم)