• صارفین کی تعداد :
  • 5096
  • 12/5/2010
  • تاريخ :

مقدس میلانات

الله

ایک خدا کے بارے میں جستجو کے فطری ہونے کے معنی سے متعلق ہے۔ یہ سوال بھیجنے والوں نے کتاب ”خدا از دیدگاہ قرآن“ سے یہ بات نقل کی ہے کہ انسان جب طبیعی مظاہر کو دیکھتے ہیں تو ان کی علت کی جستجوکرتے ہیں اور جب ایک علت کو پا لیتے ہیں تو پھر اس علت کی علت کو تلاش کرتے ہیں۔اسی بات نے انسان کو آخر کار اس بات تک پہنچایا کہ علتوں کے اس سلسلے کو کسی جگہ پر ختم بھی ہونا چاہیے۔اگر بنایہ ہو کہ ہر مظہر خود ہی کسی دوسری چیز کا معلول ہو یعنی دوسری چیز کے وجود میں آنے کی علت یہ بنا ہو تو وہ دوسری چیز بھی تو اسی کے مانند ہے۔ اصطلاحاً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ارتکاز فکر مقتضی ہے کہ یوں تسلسل پیش آتا ہے جو محال ہے۔ پس آخر کار ان کی فکر یہاں تک پہنچی کہ کوئی ایک مرکزی نقطہ ہونا چاہیے جو علت العلل ہو اور سب علتیں وہیں سے پیدا ہوتی ہوں۔ یہ بات مذکورہ کتاب سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

لہٰذا اس جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ خارجی مظاہر انسانوں کو مبدائِ اولیہ کی جستجو پر ابھارتے ہیں تو پھر آپ نے اصول فلسفہ کی جلد پنجم میں جو یہ کہا ہے کہ خدا کے بارے میں بحث فطری ہے اس کی آپ کیسے توجیہ کریں گے جبکہ خارجی مظاہر انسان کو خدا کی جستجوپر ابھارتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں کیا ہم خود اعتراف نہیں کر رہے کہ خارجی مظاہر انسان کو خدا کی بحث کی طرف متوجہ کرتے ہیں نہ کہ انسانی وجود کے اندر سے کوئی عامل اسے اس کے لئے ابھارتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ آپ نے اصول فلسفہ کا ہی غور سے مطالعہ کیا ہو تو اس کا جواب وہاں موجود ہے۔ جتنا مجھے اجمالاً یاد ہے علیتِ عامہ کے حوالے سے ایک بات ہم نے وہاں کہی ہے۔ یعنی یہ کہ انسان جو اللہ کی جستجو کرتا ہے اس کی علت یہی ہے کہ اصول علیت اس کی روح پر حکم فرما ہے۔ یعنی انسان علتوں کی جستجو میں ہے اور علتوں کی اسی جستجو نے اسے علت العلل تک پہنچایا ہے اور اس کا بالکل یہی مطلب ہے کہ عامل وجود انسانی کے اندر موجود ہے ۔یعنی اگر یہ تحریک انسان کے اندر نہ ہوتی کہ وہ علتوں کو کشف کرے اوریوں وہ علتوں کے سرچشمے تک جا پہنچے تو خارجی مظاہر کو دیکھ کر وہ ان کے پاس سے بالکل لاتعلق گزر جاتا۔ بحث یہ ہے کہ جب خارجی مظہر جو اپنے آپ کو انسان کے سامنے پیش کرتا ہے حیوان کے سامنے بھی ہوتا ہے یعنی جو کچھ انسان دیکھتا ہے حیوان بھی دیکھتا ہے لیکن جو چیز ان خارجی مظاہر کو دیکھنے کے بعد انسان کو ان کی علتوں کی جستجو پر ابھارتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی حس انسان کے اندر موجود ہے جو اسے کہتی ہے کہ ہر مظہر اورہر چیز کا وجود ایک علت کا محتاج ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ اگر وہ علت بھی اسی مظہر کی طرح کوئی مظہر ہو اور اسی چیز کی طرح کوئی چیز ہو اور وہ خود بھی کسی علت کی محتاج ہوتوانسان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوگی کہ کیا سب علتوں کا کوئی ایک سرچشمہ بھی ہے، ایسا سرچشمہ جو ایسی علت ہوکہ، جو ایسی وقوع پذیر ہونے والی چیز نہ ہو اور بالکل یہی فطری ہونے کا معنی ہے۔ یہ بات نہ فقط اس امر کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کی تائید کرتی ہے۔ اس کی تفصیل بعد کے لئے رہنے دیں۔

دوسرا سوال فطری ہونے کی علامات کے بارے میں ہے۔ پہلے بھی ہم عرض کر چکے ہیں کہ اس سلسلے میں ہم آئندہ بحث کریں گے کہ کسی خصلت کے فطری ہونے کی کیا علامات ہیں ہم کہاں سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ انسان میں فلاں صفت یا فلاں خصلت فطری ہے یا بعض اجتماعی یا انفرادی خارجی عوامل کا نتیجہ ہے۔

ہم اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ بات مسلم ہے اوراس میں کوئی شک نہیں اور اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ انسان ان تمام دیگر موجودات سے کہ جنھیں ہم جانتے ہیں یہ فرق رکھتا ہے کہ یہ ایک ایسا موجود ہے جو فکر کرتا ہے۔ عصر حاضر کی تعبیرمیں یہ ایک آگاہ موجود ہے۔ خود سے بھی آگاہ ہے اورجہان سے بھی۔ انسان اپنی اس خصلت کی وجہ سے جہاں خارج کے بارے میں کچھ معلومات رکھتا ہے کہ جنھیں ہم ادراک کہتے ہیں اور یہ کیا عمدہ لفظ ہے کہ جو قدیم زمانے سے انتخاب شدہ ہے ادراک یعنی پالینا اور پہنچنا ۔ فلاسفہ نے بھی اس لفظ کی لغوی بنیاد سے کام لیا ہے۔اگر کوئی شخص کسی چیز کی جستجو میں ہو اور اس تک جا پہنچے تو عربی زبان میں کہتے ہیں ”ادرکہ“ مثلاً اگر کوئی شخص کسی آدمی کا پیچھا کررہا ہو اور وہ بھاگ جائے اور یہ بھی اس کے پیچھے دوڑے تو یا تو اسے پالیتا ہے یا اس تک نہیں پہنچ پاتا اگر اس تک جا پہنچے تو کہتے ہیں ”ادرکہ “۔

جہان خارج کے بارے میں انسان کی دریافت اور ادراک انسان اور جہان خارج کے درمیان ایک طرح کا اتصال اورارتباط ہے اس طرح سے کہ گویا انسان جب تک جاہل ہے اس کے اورجہان کے درمیان پردہ اور رکاوٹ موجود ہے اور جس قدر وہ کائنات سے آگاہ ہوگا اسی قدر وہ کائنات کو پالے گا اور اس تک پہنچ جائے گا ،یہ ایک طرح کا پہنچنا ہے۔

شک نہیں کہ اس جہت سے جمادات ،نباتات اور حیوانات میں سے کوئی بھی انسان کا شریک نہیں، حیوانات جہانِ خارج کے بارے میں ایک طرح کی مبہم سی آگاہی رکھتے ہیں لیکن یہ امر مسلم ہے کہ یہ آگاہی انسانی آگاہی کے برابر نہیں ہے ۔کم ازکم یہ ہے کہ وہ فکر نہیں کرتے کیونکہ فکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی موجود دستیاب سرمائے کے ذریعے ایک نئے سرمائے تک پہنچے۔ یعنی جو کچھ وہ جانتا ہے اس کے ذریعے جوکچھ نہیں جانتا اسے کشف کرے۔ آپ جب کسی موضوع کے بارے میں فکر کرنے بیٹھتے ہیں مثلاً کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کے بارے میں فکرکرتے ہیں اور اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ یہ ”فکر کرنا“ کونسا عمل ہے ۔یہ عمل یوں ہے کہ آپ اپنے پاس موجود معلومات کو آپس میں اس طرح سے مربوط کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے مجہول معلوم میں بدل جائے۔ یعنی ایک نئی راہِ حل تلاش کرتے ہیں ۔ یہ عمل بالکل عالم مادہ اور عالم جسم میں توالد و تناسل کے مانند ہے کہ جس میں موجود ۔۔۔ مذکر اور مونث ۔۔۔ ایک دوسرے سے ازدواج کرتے ہیں اور ان کے اس ازدواج سے ایک نیا مولود وجود میں آتا ہے۔ انسان جب فکر کرتا ہے تو پہلے سے موجود معلومات کے سرمائے کی آپس میں پیوند کاری ہوتی ہے اور اس پیوند کاری اور جفت بندی سے ان کے درمیان رابطہ وجود میں آتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے لئے ایک نئی فکر اور ایک نئی راہِ حل پیدا ہوجاتی ہے ۔ حیوانوں میں یہ بات نہیں ہے، حیوان فقط حس کرتاہے۔ بس سطحی سا مشاہدہ کرتا ہے۔ مثلاً ہم بھی رنگوں کو دیکھتے ہیں اور حیوان بھی دیکھتے ہیں، ہم بھی حرارت کا احساس کرتے ہیں اور وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ فکر کرنا انسان کی خصوصیات میں سے ہے۔

استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: ثاقب اکبر


متعلقہ تحریریں :

اصالتِ روح

اصالتِ روح (حصّہ دوّم)

اصالتِ روح (حصّہ سوّم)

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

اصالتِ روح (حصّہ ششم)

اصالتِ روح (حصّہ هفتم)

اصالتِ روح (حصّہ هشتم)

اصالتِ روح (حصّہ نهم)

اصالتِ روح (حصّہ دهم)