حضرت مو لانا مفتی وقار الدین قادری رحمت اللہ علیہ
حضرت مولانا مفتی وقارالدین صا حب یکم جولائی 1915ء میں موضع پوٹا کھمریا ضلع پیلی بھیت یو پی میں آل ِ ذورعین کے ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ کئی مواضعات کا مالک تھا۔ ان کے والد کا اسم گرامی حمید الدین تھا جن کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن کے نام امین الدین ،تاج الدین، وقار الدین اور صغیرالدین تھے۔ حضرت مولانا وقار الدین صاحب کا نمبر اپنے بھائیوں میں تیسرا تھا۔ ان کے والد نے تین بچوں کو انگریزی تعلیم سے آراستہ کیا امین الدین صاحب ، تاج الدین صا حب نے ریلوے میں ملا زمت اختیار کی اور صغیرالدین صاحب فو ج میں چلے گئے۔ چارو ں صاحبزادوں کا انتقا ل کراچی میں ہوا اور وہیں آسودہ خا ک ہیں ۔ جبکہ حضرت مو لانا مرحوم کا رجحان شروع سے ہی دین کی طر ف تھا۔ لہذا ان کے والد نے جو خود بھی ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کی خواہش کا احترام کر تے ہو ئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا صا حب مر حوم کے قائم کر دہ مدرسہ میں جو کہ بی بی جی مسجد بریلی میں قائم تھا اور اسوقت تک ایک بڑی در سگاہ بن چکا تھا ، اس میں ان کوبرائے دینی تعلیم دا خل کرا دیا۔ وہاں سے انہو ں نے دستار فضیلت جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے1944 ءمیں حاصل کی اور اس کے بعد وہیں درس دینے لگے۔ اسوقت وہاں حضرت مو لانا سردار احمد صا حب( حال وارد فیصل آباد ) انچا رج تھے ۔ یہ سلسلہ 1947تک جاری رہا ۔ پاکستان بننے کے بعد وہ نرائن گنج ( ڈھاکہ ) ہجرت فرما گئے پھر چٹا گانگ میں اپنا دار العلوم قائم فرمایا اور ایک اچھی خاصی تعداد طالب علموں کی اپنے گرد جمع کر لی جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں سے تجاوز کر گئی۔ چونکہ ان کو چاروں سلسلوں سے خرقہ ِخلافت ملے ہوئے تھے۔ لہذا وہاں انہو ں نے اچھے خاصے مرید بھی بنا ئے۔ کیو نکہ وہاں اس کی ضرورت بھی اسلیئے تھی کہ جہا لت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ علم ِدین نہ ہو نے کے برا بر تھا۔ ہندوستان سے سال کے سال علماء صا حبان تشریف لا تے اور اپنا بھتہ وصول کرکے واپس چلے جاتے۔ لوگوں کو فا تحہ دینا اور نماز ِ جنازہ پڑھانا بھی نہیں آتی تھی۔جو تھوڑی بہت شد بدھ رکھتے تھے، وہ رقم لیکر نماز ِ جنازہ پڑھاتے تھے۔ لہذا جہاں لا وارث میتوں کے کفن دفن کے لیئے چندہ ہوتا تھا وہیں مولوی صاحب کی فیس بھی نماز جنازہ پڑھانے کی مد میں چندے میں شامل ہوتی تھی۔
فاتحہ کے لیئے اکثر نذرانہ دیکر جس کی جنتی گنجا ئش ہوتی ایک سال دو سال کی فا تحہ ایک بوتل میں پانی بھر کر پھُنکوا لیتا۔اور جب فا تحہ دلانا ہوتی تو اس میں سے چند قطرے ٹپکا دئے جاتے اور فا تحہ ہو جاتی۔ سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع نوا کھا لی کا سمجھا جا تا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہا ں گیارہ لاکھ آبادی ہے اور اس میں سے پانچ لاکھ مولوی ہیں ۔ وہ واحد ضلع تھا جو علماء کے معاملے میں خود کفیل تھا۔ ان کے علم کے معیار کا اندا زہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کشور گنج ضلع میمن سنگھ میں میرے پاس ایک ملا زم نوا کھالی کا تھا۔ رمضان آ گئے میں نے اس سے پو چھا نظام الدین تم قرآن کی تلاوت نہیں کرتے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اگر میں قر آن پڑھا ہوا ہوتا تو یہا ں کیوں آتا ، اپنے ہاں کی کسی مسجد میں مولوی نہ لگ جاتا۔ اس وقت وہاں علما ء میں ایک ہی مشہور نام تھا جو کہ دیو بند کے فارغ التحصیل تھے ۔ ان کا نام تھا مولانا اطہر علی جو کشور گنج میں رہتے تھے اور انکا دار العلوم بھی تھا۔ جو بعد میں نظامِ اسلام پا رٹی کے بانی بنے ۔یہ صورت حا ل تھی جب حضرت مولانا مفتی وقار الدین صا حب نے وہاں علم کا چشمہ جا ری کیا ۔ وہاں آپ اکثر لوگوں کے نام کے ساتھ مو لوی لکھا دیکھیں گے، مگر اس سے آپ ان کو دینی عالم نہ قیاس فر ما لیں۔ کیو نکہ یو پی اور بنگال میں مسلما ن وکیلو ں کو بھی مولوی صاحب کہا جا تا تھا ۔اس لیئے کہ وہ شریعت کا قانون پڑھے ہو ئے ہو تے تھے، اور عدالتو ں میں ور اثت، طلا ق وغیرہ کے مسلما نوں کے مقد ما ت لڑتے تھے۔
تحریر : شمس جیلانی ( عالمی اخبار )
متعلقہ تحریریں:
ڈاکٹر موسی ابو مرزوق سے انٹرویو
آیۃ اللہ العظمی سید محمد حسین فضل اللہ دام ظلہ کا انٹرویو
اسعد بن علی
احمد حسين يعقوب
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو