سید ابن طاؤوس اور دشت سامرا کے سوار
اسماعیل کے بغداد سے چلے جانے کے بعد وزیر کے بیٹے نے سید بن طاؤوس کو اپنے دفتر میں بلایا اور کہا :
” دونوں نہروں کے ناظروں نے خبردی ہے کہ ہرقل کے ایک جوان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے مہدی علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔ اس خبر سے شہر میں ایک ہنگامہ ہے یہ وہی جوان ہے جو کچھ دن پہلے آپ ہی کے یہاں مقیم تھا لہٰذا مناسب ہے کہ جلد سے جلد آپ اس خبر کی تحقیق کریں اور ہمیں آگاہ کریں۔“
ابن طاؤوس نے وزیر کے بیٹے کو مثبت جوب دیا اور گھر آگئے تاکہ مقدمات سفر فراہم کریں اور تحقیق کا کام شروع کریں لیکن بغداد میں شیعیان علی کے درمیان جو خبر مشہور تھی اس نے تمام تحقیقی امور سے نجات دلا دی خبر یہ تھی کہ کل صبح اسماعیل بغداد آئے گا۔
دوسرے دن صبح ابن طاؤوس چنددوستوں کے ساتھ مرکزی پل پر جمع ہو گئے تاکہ شہر میں آنے والے جوان سے ملاقات کریں اور خبر کی تصدیق یا تکذیب کریں۔ جب بن طاؤوس پر آئے تو ایک جم غفیر دیکھاان کے ساتھیوں میں سے ایک نے راستہ چلنے والے سے پوچھا : کیا خبر ہے ؟“اس نے جواب دیا : ”تمہیں نہیں معلوم ؟ کیا تم بغداد کے رہنے والے نہیں ہو جس مرد نے حضرت مہدی علیہ السلام کی زیارت کی ہے وہ یہا ں آچکا ہے لوگوں کا ہجوم اس لئے ہے کہ اس کی زیارت کریں اور اس کے بدن کا کچھ کپٹرا تبرک کے عنوان سے حاصل کریں خدا کرے اس بڑے مجمع سے اسے کوئی نقصان نہ ہو۔“
ابن طاؤوس کے کانوں میں مسافر کی یہ آواز جیسے ہی پہنچے اپنے کو مجمع میں پہنچادیا دوستوں نے اطراف سے لوگوں کو ہٹا یا ابن طاؤوس نے آنے والے مسافرسے سوال کیا :” وہ شفا حاصل کرنے والا شخص تو ہی ہے جس سے شہر میں ایک ہنگامہ ہے؟“
مرد نے جواب دیا : ”جی ہاں!“
سید گھوڑے سے اتر کو جوان کے قریب آئے دیکھا او ر کہا :
”ارے اسماعیل! تم ہو؟ لاؤ تمہارا زخم دیکھوں۔“
ہرقلی جوان نے بائیں ران سے کپڑا ہٹا دیا ابن طاؤوس نے جیسے ہی دیکھا بے ہوش ہو گئے دوستوں نے کوشش کر کے غشی سے نجات دلائی اسماعیل کو عزت و احترام سے اپنے گھر لائے۔ سفر کی خستگی دور ہونے کے بعد ابن طاؤوس نے جوان سے پوچھا:
”اے اسماعیل ! سفر کی داستان و زخم مندمل ہونے کی بات بغیر کسی کمی و زیادتی کے ساتھ بیان کرو اس لئے کہ میں منتظر ہوں۔“
اسماعیل نے گردن جھکا کر داستان اس طرح شروع کی:
”اے ہمارے محسن! مجھے ابھی تک آپ کی نیکیاں یاد ہیں میں کبھی بھی انھیں بھلا نہیں سکتا جب آپ کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں جو آپ نے میری نجات کے لئے کی تھیں او ر بغداد کے طبیبوں نے بھی وہی جواب دیا جو حلہ کے طبیبوں نے جواب دیا تھا میں نے نا امید ہو کر آپ سے کہا تھا کہ اب میں سامراجارہاہوں۔
سامرا میں سب سے پہلے میں نے امام علی النقی و امام حسن عسکری علیہما السلام کی زیارت کی اس کے بعد سرداب (امام حسن عسکری علیہ السلام کی رحلت کے بعد امام زمانہ نے غسل و کفن دیا نماز پڑھائی اور دفن کیا اب ہر وقت حکومت کی نگاہ آپ پر تھی کہ گرفتار کر کے شہید کر دیا جائے ایک بار جب دشمن گرفتاری کے لئے آئے تو سیڑھیوں سے نیچے اترے اور ہمیشہ کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے بعض مورخوں کے مطابق آپ ۱۰/شوال ۲۶۲ھ میں سرداب گئے تھے اس کے بعد سے یہ سرداب شیعوں کی زیارت گاہ بن گیا) کی زیارت کی تمام رات اسی سرداب میں گریہ و زاری کرتا رہا امام زمانہ کی خدمت میں عر ض کیا: اے مولیٰ! میری مدد کیجئے خدا کی بارگاہ میں میرے لئے دعا کیجئے صبح دریا کے کنارے گیا کپڑوں کو پاک کیا زیارت کے لئے غسل کیا ایک لوٹا پانی بھرا اور حرم کی جانب روانہ ہوا تاکہ دونوں معصوموں کی زیارت کروں لیکن میں ابھی حرم معصومہ تک نہیں پہنچا تھا کہ اچانک (۴) چار سواروں کو دیکھا میں نے خیال کیا کہ سامرا کے اطراف میں رہنے والے ہوں گے اس لئے کہ سامرا کے اطراف میں آبادی ہے۔
جب چاروں سوار قریب آئے تو میں نے دیکھا کہ (۲) دو جوان ہیں اور تلوار لئے ایک سن سیدہ سوار تھا جس کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا چوتھے سوار کے بغل میں تلوار لٹک رہی تھی وہ ردا جیسی چیز اوڑھے تھا ، سر پر عمامہ تھا ، ہاتھ میں نیزہ تھا جب وہ سوار میرے پاس آئے تو سن رسیدہ سوار میری داہنی طرف کھڑا ہوا نیزہ کا آخری سرازمین پر تھا دو جوان میری بائیں جانب تھے چوتھا جوان سامنے کھڑا ہو گیا سب نے سلام کیا۔
میں نے سلام کا جواب دیا جو جوان میرے سامنے کھڑا تھا اس نے سوال کیا:” کیا کل تم چلے جاؤ گے ؟“ میں نے جواب دیا : جی ہاں! جوان نے کہا:”آگے آو دیکھوں کون سی چیز ہے جس سے تم پریشان ہو ؟“ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ابھی غسل کر کے آیا ہوں ابھی کپڑابھی گیلا ہے یہ لوگ بادیہ نشین ہیں نجات وغیرہ سے پرہیز نہیں کرتے ممکن ہے نجس ہوں لہٰذا ان کا ہاتھ نہ لگے تو بہتر ہے ۔
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جوان آگے جھکا مجھے آگے کیا اور زخم پر ہاتھ رکھا اوربایا کہ مجھے درد کااحساس ہوا پھر خود گھوڑے پر سوار ہوگیا ۔ سن رسیدہ مرد نے کہا :” اسماعیل تمہیں درد سے نجات مل گئی تم کامیاب ہو۔“ میں نے جب اپنا نام سنا تو بڑا تعجب ہوا میں نے جواب دیا : آپ بھی کامیاب ہیں۔ سن رسیدہ شخص نے پھر کہا :” امام ہیں امام !
میں نے دوڑ کر رکاب کابوسہ لیاامام چلنے لگے میں گریہ کرتے ہوئے ان کے پیچھے چلنے لگا حضرت نے فرمایا: ” و اپس جاؤ“ میں نے جواب دیا : کسی بھی صورت میں آپ سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔ امام نے دوبارہ فرمایا :”واپس جاؤاسی میں تمہاری بھلاء ہے۔“ میں نے عرض کیا : کسی بھی طرح سے آپ جدا نہیں رہوں گا ۔ سن رسیدہ مرد نے کہا: ”اسماعیل ! تمہیں شرم نہیں آتی امام زمانہ نے دوبار کہا واپس جاؤ لیکن تم نے مخالفت کی۔
میں بہت متاثر ہوا وہیں رک گیا تھوڑا سا فاصلہ ہو گیا حضرت نے میرے اوپر لطف کیا فرمایا :” جب تم بغداد پہنچو گے مستنصر تمہیں طلب کرے گاہدیہ و تحفہ بھی دے گا لیکن تم قبول نہ کرنا میرے فرزند رضی الدین کے پاس جانا اور کہنا کہ تمہارے اور علی بن عوض کے بارے میں کچھ تحریر کرے میں اس سے کہتاہوں کہ تمہیں جو بھی چاہیے پورا کرے۔“
اس کے بعد ہماری گفتگو ختم ہوئی اور وہ حضرات مجھ سے جدا ہوگئے۔ میں اتنی طولانی مدت کے بعد ملاقات اور فورا جدائی سے افسوس کی حالت میں گھٹنوں بیٹھا تھا پھر حرم مطہر آیا لوگوں نے جیسا ہی مجھے دیکھا کہا: تمہارے اندر عجیب تغیر ہے کیا کسی چیز کی تکلیف ہے؟
میں نے جواب دیا : نہیں! لیکن تم یہ بتاؤ کہ جو سوار ابھی یہاں سے گزرے ہیں تم نے انہیں دیکھا ہے ؟ جواب دیا : وہ لوگ اطراف کے رہنے والے بادیہ نشین ہیں جو سامرا میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں! وہ بادیہ نشین نہیں تھے بلکہ ان میں سے ایک امام زمانہ تھے۔ پوچھا : کون؟ وہ جو سن رسیدہ تھے یا وہ جو جوان او ر ردا اوڑھے تھے؟ میں نے جواب دیا : وہی جونا جو ردا اوڑھے تھے۔
لوگوں نے کہا : تم نے اپنا زخم انہیں دکھایا ؟ میں نے جواب دیا : ہاں ! امام زمانہ نے میرے زخم پر ہاتھ بھی رکھا تھا میں نے درد بھی محسوس کیا تھا اب میں نے اپنا پیر دیکھا زخم کا نام و نشان بھی نہ تھا میں بہت حیران و پریشان تھا میں نے دوسرا پیربھی دیکھا زخم نہ تھا لوگوں نے مجھ پر ہجوم کر دیا میرا کپڑا بھی نوچ ڈالا اگر کچھ لوگ مجھے نجات نہ دلاتے تو میں ہجوم میں دب کر مر جاتا دونوں نہروں کے درمیان جو محافظ تھے اس نے بھیڑ دیکھ کر مسئلہ کی سنگینی کا احساس کیا اور پوری تفصیلات مرکز کو روانہ کی۔
شب میں نے سامرا میں بسر کی صبح کو بہت سے لوگوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوا دوسرے دن بغداد کے پل پر پہنچا تو بہت سے لوگ جمع تھے جو مسافروں کے نام و نسب معلوم کر رہے تھے میں نے جیسے ہی اپنا نام بتایا لوگوں نے ہجوم کردیا میرے لباس کو پارہ پارہ کر ڈالا لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ عنقریب میرا دم گھٹ جائے اتنے میں آپ آگئے اور مجھے موت کے منھ سے بچا لیا۔“
ابن طاؤوس گردن جھکا کر ساری داستان سنتے رہے سر اوپر کر کے کہا:
آؤ موید الدین ابن علمقی کے پاس چلیں جیسے ہی ناظم بین نہرین کا خط اسے ملافورا اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس واقعہ کی تحقیق کروں او ر نتیجہ کا اعلان کروں۔“
اسلام ان اردو ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
سید ابن طاؤوس (علماء سے ارتباط)
سید بن طاؤوس(فقیہ آگاہ)
سید بن طاؤوس ( تحصیل نور)
سید بن طاؤوس (طائر قفس)
آیۃ اللّہ العظمی سید ابوالحسن اصفھانی کے اخلاقی فضائل
آیۃ اللّہ العظمی سید ابوالحسن اصفھانی کا علمی مقام
آیۃ اللّہ العظمی سید ابوالحسن اصفھانی، عراق میں
آیۃ اللّہ العظمی سید ابوالحسن اصفھانی
شیخ شہید (فضل اللہ نوری)
آیت اللہ علی صافی ـ حیات تا وصال