سید ابن طاؤوس (علماء سے ارتباط)
ابو ابراہیم جو حلہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے اپنی زوجہ محترمہ سے مشورہ کیا کہ ابن طاؤوس کو رشتہ ازدواج میں باندھ دیا جائے چنانچہ ناصر بن مہدی جوشیعہ وزیر تھے ان کی بیٹی زہرا ، خاتون کا انتخاب کیا گیا ابن طاووس جو مزید تحقیقی و عرفانی مراحل طے کرنا چاہتے تھے شا دی کے لئے تیار نہ ہوء۔
ابو ابراہیم باپ کے حیثیت سی اس کی شادی کی ذمہ داری پوری کرنا چاہتے تھے لیکن ابن طاوؤس شادی نہ کرنے میں بھلائی محسوس کر رہے تھے باپ بیٹے کی یہ کشمکش کافی عرصہ تک جاری رہی۔ سید ابن طاؤوس کے پاس اس کے سوا اب کوئی چارہ نہ رہا کہ حرم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں پناہ لیں انہوں نے سوچا کہ کچھ دن حرم میں رہ کر مادیت سے نجات حاصل کریں اس کے بعد خدا وند عالم سے رائے طلب کریں جو حکم ہوا انجام دیں۔
حرم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں رہنے کے بعد استخارہ کا نتیجہ وہی تھا جو ان کے والد ماجد چاہتے تھے اب انہوں نے شادی کے لئے آمادگی کا اظہار کیا اور جو رکاوٹ تھی وہ برطرف ہو گئی۔
کچھ دن بعد رضی الدین کی شادی متقی ، پرہیز گار خاتون زہراء بنت ناصر بن مہدی کے ساتھ ہوگئی اب ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا۔
غم کے بادل
۶۲۰ ہجری ابن طاؤوس کے لئے غم کا سال تھا کیونکہ آج ابراہیم سعد الدین، موسیٰ بن جعفر نے رحلت کی ابن طاؤوس کو داغ مفارقت برداشت کرنا پڑا۔
اب ابن طاؤوس کے لئے تحقیق و تعلیم کے علاوہ ایک ذمہ داری اور بڑھ گئی وہ یہ کہ باپ نے جو کاغذ ا ور مسودے چھوڑے تھے اس پر تحقیق کر کے اسے تحریری صورت میں پیش کریں تاکہ مرور زمانہ کا شکار ہو کر نابود نہ ہونے پائیں۔
ابن طاؤوس نے بڑے احترام و اکرام سے باپ کا جنازہ اپنے جد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا اور باپ کے ادھورے کام کو پورا کرنے میں لگ گئے جتنی مختلف جداگانہ روایتیں تھیں سب کو باب کی صورت میں منظم کیا ہر باب سے پہلے ایک مقدمہ لکھا تھا تمام لوگوں کے استفادہ کے لئے ” فرحتہ الناظر الخواطر“ کے نام سے پیش کیا۔
اسلام ان اردو ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
شیخ شہید (فضل اللہ نوری)