زچہ و بچہ کی صحت اور مڈوائف (حصّہ دوّم)
ہر سال پاکستان کی آبادی میں 48 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ شیر خوار بچوں اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات بالترتیب 78 اور 94 فی 1000 زندہ پیدائش ہے جوکہ مطلوبہ اہداف سے کہیں دور ہے۔ بچوں کی شرح اموات کی اہم وجوہات میں خوراک کی کمی، دستوں اور سانس کی شدید بیماریاں شامل ہیں اسکے علاوہ چھوت اور ویکسین کے ذریعے روکی جا سکنے والی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔ پیدائش کے بعد ایک ماہ کے اندر ہونے والی اموات کی شرح54 فی 1000 زندہ پیدائش ہے اور ان اموات کی اہم وجوہات میں سانس میں رکاوٹ ، ناڑو کا انفیکشن ، نمونیا اور کم وزن پیدائش ہیں۔ بعد ازاں پیدائش دیکھ بھال کی شرح بہت کم ( 22 فی صد) ہے جس کی وجہ سے ماں اور نوزائیدہ کی دیکھ بھال بہتر طریقے سے نہیں ہو پاتی۔
غذائی کمی بھی ماؤں اور نوزائیدہ کی صحت کے مسائل میں اضافہ کرتی ہے جس کے نتیجے میں تقریباً30 فی صد بچے کم وزن پیدا ہوتے ہیں اور نصف سے زائد عورتوں میں فولاد اور خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ، غذائی کمی کے بارے میں 2001-2 میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق ، غذائی کمی کی شرح بہت زیادہ ہے ، حمل ضائع ہونے کی شرح 13 فی صد اور کم وزن بچوں کی شرح38 فی صد ہے۔ اسی سروے میں تقریباً13 فی صد غیر حاملہ اور 16 فی صد حاملہ عورتوں کو خوراک کی کمی کا شکار بتایا گیا ہے۔
پیدائش کے وقت کم وزن غذائی کمی، سانس کی بیماریاں، دست و اسہال اور خون کی کمی جیسے مسائل مشترکہ طور پر پاکستانی بچوں میں بیماریوں اور اموات کی زیادہ شرح کا باعث بنتے ہیں ۔ پیٹ کے کیڑوں کی وجہ سے ہونے والی خون کی کمی، نامکمل بڑھوتی اور نامکمل ذہنی نشوونما وغیرہ بھی بچوں میں عام ہے۔ بچوں کی اموات کا باعث بننے والی تمام بڑی وجوہات کے تدارک کے لئے کم قیمت حل موجود ہے مگر بہت سے ممالک میں جہاں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے ، ان کم قیمت سہولتوں کے حصول کی شرح بہت کم ہے اسکے بارے میں شعور اور آگاہی کا فقدان ہے جس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرور ت ہے۔
ایک ایسا پروگرام جس میں بہت سے خدمات کو اکھٹا فراہم کیا جا سکے نہ صرف ممکن ہے بلکہ بہت موثر بھی ہوں گے۔ اس پروگرام میں وٹامن اے کی اضافی خوراک دینے، حفاظتی ٹیکوں، پیٹ کے کیٹروں سے نجات، بہتر سینٹی ٹیشن(صفائی) اور حفظان صحت کی تعلیم، بڑھوتی کے عمل کی نگرانی، نمونیہ اور دست و اسہال سے بچاؤ اور کنٹرول جیسے عناصر کو یکجا کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام خدمات یکجا ہو کر شیر خوار اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی لا سکتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں بچوں کی جانیں بچانے کے لئے تیز تر کو ششیں کی جا رہی ہیں وہاں حفاظتی ٹیکے، وٹامن اے کی اضافی خورا ک صرف اور صرف ماں کا دودھ، پیٹ کے کیڑوں سے نجات او ۔آر۔ ایس کے ذریعے دست و اسہال کا علاج اور دوا لگی مچھر دانیوں کی بیک وقت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر گھانا میں یونیسف کی جانب سے شروع کئے گئے ایک پروگرام کے تحت شیر خوار بچوں کی شرح اموات میں جو 1998 میں 82 فیصد تھیں،2003 میں کم ہو کر33 فیصد ہو گئیں جبکہ 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں اسی عرصے کے دوران 155 سے 79 تک کمی نوٹ کی گئی۔ اگر پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں کمی کے لئے مندرجہ بالا اقدامات پر ترجیحی بنیادوں پر عمل کیا جائے تو اُس کے مثبت اثرات مر تب ہوں گے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستا ن میں19 فیصد اموات ڈائریا اور 13 فیصد بچے نمونیہ کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں بچوں میں نمونیہ کے تین چو تھائی یعنی75 فیصد کیسز 15 ممالک میں ہوتے ہیں اور ان میں پاکستان کا نمبر تیسر ا ہے جہاں ہر سال7 ملین بچے نمونیہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نمونیہ سے ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لئے لازمی ہے کے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ بچے اتنے صحت مند اور تندرست ہوں کہ وہ سرے سے نمونیہ کا شکار ہی نہ ہونے پائیں۔ غذائیت کا ناقص معیار، حفاظتی ٹیکوں کا نامکمل کورس، صرف اور صرف ماں کا دودھ اور بروقت طبی امداد نہ لینا نمونیہ سے ہونے والی بیماری یا اموات کی بنیادی وجوہا ت ہیں۔ جبکہ پاکستان میں (0-59) ماہ کے 38 فیصد بچے کم وزن ہیں، 6 ماہ سے کم عمر محض37 فیصد بچے صرف اور صرف ماں کا دودھ پیتے ہیں، صرف 47 فیصد بچوں کا حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروایا گیا ہے اور نمونیہ کا شکار ہونے والے5 سال سے کم عمر صرف69 فیصد بچوں کو صحت کے مناسب کارکن کے پاس لے جایا جاتا ہے جن میں سے صرف50 فیصد کو اینٹی بائیو ٹک علاج مل پاتاہے۔ نمونیہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا ویکسنیشن کے کورس مکمل کیا جائے۔
تحریر، ضابطہ خان مہمند
متعلقہ تحریریں :
دنیا میں ہر سال ہزاروں افراد ڈینگی بخار کا شکار
سوائن فلو کیا ہے؟