سوائن فلو کیا ہے؟
میکسیکو سے شروع ہونے والی ’’سوائن فلو‘‘ کی بیماری اب دنیا کے دوسرے خطّوں میں بسنے والے انسانوں کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
سوال لیکن یہ ہے کہ ’’سوائن فلو‘‘ آخر ہے کیا؟ یہ بیماری کہاں سے آتی ہے اور کیسے پھیلتی ہے؟ ’’سوائن فلو‘‘ بظاہر تو سانس کی نالی کی عام بیماریوں ہی کی طرح کی بیماری ہے۔ جیسے انسان انفلوئنزا میں مبتلا ہوتے ہیں، ویسے ہی دوسرے جاندار ، مثلاً سؤر بھی ہوتے ہیں یعنی ایک سے دوسرے میں وائرس کی منتقلی کی شرح کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن اِس سے موت واقع ہو جانے کے واقعات زیادہ نہیں ہوتے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے، جو موجودہ وائرس کو اتنا خطرناک بناتی ہے؟ جیسا کہ فلو کے کسی بھی اور وائرس میں دیکھنے میں آتا ہے، ’’سوائن فلو‘‘کی ساخت بھی مسلسل بدلتی رہتی ہے۔
اگر کسی سؤر میں ایک ساتھ ’’سوائن فلو، ’’برڈ فلو‘‘ اور انسانوں کے وائرس بھی ہوں، تو اُس کے جسم میں جینز ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہتے ہیں۔
اِس عمل میں وائرس کی ایک ایسی نئی قسم وجود میں آ سکتی ہے، جس میں جانور اور انسان کے وائرس، دونوں کی خصوصیات موجود ہوں۔
یہ وائرس سؤر سے براہِ راست انسان میں (لیکن انسان سے سؤر کو بھی) منتقل ہو سکتا ہے۔
’’سوائن فلو‘‘ بڑی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس سؤر سے براہِ راست انسان میں (لیکن انسان سے سؤر کو بھی) منتقل ہو سکتا ہے۔
اب تک اِس طرح کی انفیکشن کے واقعات زیادہ تر سؤروں کے ساتھ انسانوں کے براہِ راست رابطے کے نتیجے میں سامنے آئے۔ تاہم میکسیکو کے کیسز کو دیکھنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ یہ بیماری اب انسان سے انسان کو منتقل ہو رہی ہے۔ عام انفلوئنزا کی طرح یہ بیماری بھی کھانسی اور چھینکوں کے ذریعے دوسرے انسان کو منتقل ہو رہی ہے۔
میکسیکو میں لوگ اس بیماری سے بچنے کے لئے ماسک کا استعمال کر رہے ہیں.اِس کی علامات بھی عام انفلوئنزا کی طرح ہیں: یعنی بخار، تھکاوٹ کا احساس، کھانے پینے سے دل اُچاٹ ہو جانا اور کھانسی۔ کچھ مریضوں کو زکام بھی ہو جاتا ہے، یا گلے میں درد اور متلی بھی ہونے لگتی ہے۔ تاہم عام انفلوئنزا کے باعث ’’سوائن فلو‘‘ میں دست اور متلی کی کیفیات زیادہ شدید ہو سکتی ہیں۔
عالمی ادارہء صحت کی ڈائریکٹر مارگریٹ چن کے مطابق یہ بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اِس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ زیادہ تر انسانوں میں وائرس کی اِس نئی قسم کے خلاف قوتِ مدافعت نہ ہو۔ یہ فلو کتنا خطرناک ہے، ماہرین کے خیال میں اِس کا اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا۔
اب تک اِس مرض کے خلاف حفاظتی ٹیکے کا بھی امکان نہیں ہے۔ عام حفاظتی ٹیکے اِس وائرس کے خلاف بے اثر ہیں جبکہ کوئی نئی ویکسین ابھی تیار نہیں ہوئی۔ خاص طور پر امریکہ میں ایسی ویکسین تیار کرنے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
تحریر : امجد علی ، عدنان اسحاق
متعلقہ تحریریں :
کیمیائی اجزاء خواتین میں بانجھ پن کا سبب بن سکتے ہیں
پاکستان میں ہاتھوں سے پھیلنے والی بیماریاں