جامعۃ الازہر کے سربراہ کا مجوزہ دورہ ایران؛ حجۃالاسلام والمسلمین حسینی بوشہری کا خیر مقدم
حجۃالاسلام و المسلمین حسینی بوشہری نے کہا کہ حوزہ علمیہ قم رئیس جامعۃ الازہر مصر کے سربراہ کی میزبانی اور ان سے بات چیت کے لئے تیار ہے۔
اہل البیت(ع) اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم کی مرکزی شوری کے رکن حجۃالاسلام والمسلمین بوشہری نے اس خبر ایجنسی کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد الطیب کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ ایران کے دورے پر آنا چاہتے ہیں۔ تا ہم انھوں نے کہا کہ جامعۃالازہر کے سربراہ نے اپنے نئے موقف میں بھی تشیع کے بارے میں غیراصولی گفتگو کی ہے۔
انھوں نے کہا: اس کے باوجود ہم جامعۃالازہر کے سربراہ کے نئے موقف کے آخری حصے کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ کہ انھوں نے ایران کو برادر ملک قرار دیا ہے اور ایران کے دورے پر آنا چاہتے ہیں، ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: حوزہ علمیہ ان کی میزبانی کے لئے تیار ہے اور ہمارا یقین ہے کہ اس دورے میں انجام پانے والے مذاکرات امت اسلامی میں وحدت کی طرف موثر قدم شمار ہونگے۔
یادرہے کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جامعۃالازہر کےنئے سربراہ نے دو ہفتہ قبل وحدت سے متعلق کہا تھا کہ: "شیعہ و سنی مل کر علوم و معارف اسلامی سیکھ سکتے ہیں،کیونکہ دین اسلام محبت و بردباری کا دین ہے اور یہ کہ وہ ہر قسم کی شدت پسندی کے خلاف ہیں۔
تا ہم زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ انھوں نے شیعہ مخالف چینلوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: « الأزہر اسلامی ممالک میں تشیع کے فروغ کے سلسلے میں کسی بھی اقدام کا مقابلہ کرے گا!۔
ڈاکٹر احمد الطبیب نے دعوی کیا کہ جس طرح کہ ایران نے اپنی سرزمین میں سنی مذہب کی فروغ کا مقابلہ کیا اسی طرح الازہر بھی کسی بھی مسلم ملک میں تشیع کے فروغ کا مقابلہ کرے گیا۔ جبکہ ایران میں آج بھی سنی مذہب کی تبلیغ ہوتی ہے اور اہل سنت کو اپنی اذان دینے، مساجد و مدارس قائم کرنے اور جمعہ و جماعت بپاکرنے کی مکمل آزادی ہے نیز ایران کے شیعہ حوزات علمیہ میں دنیا جہان کے سنی طلبہ کو حصول علم کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ سنیوں کو ایران میں سماجی اور دینی و مذہبی آزادی حاصل ہے اور پارلیمان اور مجلس خبرگان میں سنیوں کے اپنے نمائندے ہیں اور انہیں ہر قسم کی معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کی اجازت ہے جبکہ مصر، سعودی عرب اور اردن جیسے ممالک میں اہل تشیع محروم ترین طبقہ سمجھے جاتے ہیں جو سماجی حقوق سے محروم ہیں اور انہیں سرکاری اداروں میں بھرتی نہیں کیا جاتا اور بحرین کے شیعہ اکثریتی ملک میں اقلیتی حکومت کی بات بھی تو شیخ الازہر جیسے بلند مرتبہ شخصیت سے محفی نہیں ہوگی!
نیز شیخ الازہر نے دعوی کیا ہے کہ وہ ایران میں بہت سے شیعہ علماء کے ساتھ سنی ممالک میں شیعہ تبلیغات نہ کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پر پہنچے ہیں۔ گو کہ ان کے اس دعوے کی تصدیق کبھی نہیں ہوسکی۔
شیخ الازہر نے کل (بدھ کے روز) ایک بار پھر تشیع کے فروغ کا سد باب کرنے کے سلسلے میں اپنے پرانے موقف پر زور دیا اور کہا: ہم نجف جیسے دیگر شیعہ علاقوں میں سنی مذہب کے فروغ کے بھی خلاف ہیں۔
انھوں نے جناب حسینی بوشہری کے جواب پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع کیا تا ہم انھوں نے کہا کہ: ایران ہمارا مسلم برادر ملک ہے اور میں اس ملک کا دورہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔
حسینی بوشہری نے ان کے موقف کو فتنہ انگیز قرار دیا تھا مگر شیخ الازہر نے کہا کہ وہ اپنے موقف پر ثابت قدم ہیں اور ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
شیخ الازہر نے ایک ذومعنی موقف اپناتے ہوئے کہا: ہم عالمی اسلامی میں فکری وحدت اور شیعہ اور سنی کے درمیان مثبت تعلقات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
بہر حال جناب حجۃ الاسلام والمسلمین حسینی بوشہری نے آج ان کے نئی موقف کے پیش نظر ان کے دورہ ایران کا خیر مقدم کیا ہے اور اگر یہ دو طرفہ دوروں اور بات چیت کا سلسلہ شروع ہوجائے تو یہ امت اسلام کی وحدت اور استحکام کا باعث ہو سکے گا-