ہندی اردو تنازعات اور معروضی حقائق کی روشنی میں (حصّہ چهارم)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اردو نے اپنے ارتقا کے کسی بھی مرحلے میں برج بھاشا کی ان شکلوں کو اختیار نہیں کیا۔ اردو کی شناخت روزِ اول سے ہی اس کا کھڑی بولی پر مبنی ہوناہے۔ یہ ضرور ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اردو پر دیگر بولیوں کے اثرات پڑتے رہے ہیں، جیسے کہ قدیم (دکنی) اردو پر ہریانوی (دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی) کے اثرات مرتسم ہوئے۔ لیکن اردو کا بنیادی ڈھانچا یا کینڈا جو کھڑی بولی پر مبنی ہے کبھی تبدیل نہیں ہوا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ کھڑی بولی کے نکھار کا زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ یہیں سے کھڑی بولی، اردو کی شکل میں اپنا نیا روپ اختیار کرتی ہے۔ کھڑی بولی کے اس روپ کو ہم اردو کا ابتدائی روپ یا’’ قدیم اردو‘‘ کہیں گے۔ ’’ہندی‘‘، ’’ہندوی‘‘ اور ’’ریختہ‘‘ سے بھی قدیم اردو ہی مراد ہے۔ اردو کا قدیم نام ’’ہندی‘‘ بعد کے دور تک یعنی بیسویں صدی کے اوائل تک رائج رہا (اگرچہ اس کا ’’اردو‘‘ نام بھی استعمال ہوتا رہا)۔ اردو کے مستند ادیبوں میں غالب کے علاوہ علامہ اقبال نے بھی اردو کے لیے ’’ہندی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اقبال اپنی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ میں فرماتے ہیں:
گرچہ ہندی درعذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیریں تراست
ترجمہ : اگرچہ اردو مٹھاس میں شکر کی طرح ہے، لیکن فارسی اس سے بھی زیادہ میٹھی زبان ہے۔
یہاں ’’ہندی‘‘ سے اردو زبان اور ’’دری‘‘ سے فارسی زبان مراد ہے۔
لہٰذا قدیم فارسی تذکروں، تاریخ کی کتابوں اور اس زمانے کی ادبی تصانیف میں مستعمل لفظ ’’ہندی‘‘ سے زمانۂ حال کی ہندی مراد لینا سراسر نادانی ہے۔
جس وقت ہماری آج کی اردو کی ابتدائی یا قدیم شکل کے لیے ’’ہندی‘‘، ’’ہندوی‘‘ اور ’ریختہ‘‘ جیسے نام رائج ہوئے تھے اس وقت زمانۂ حال کی ہندی یا دیوناگری ہندی کا کہیں وجود نہیں تھا۔
زمانۂ حال کی ہندی (جو دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جاتی ہے) درحقیقت انیسویں صدی کے اوائل کی اختراع ہے، جب کہ اردو کے یہ نام بارھویں- تیرھویں صدی سے رائج ہیں۔ لہٰذا موجودہ ہندی بولنے والوں کا یہ خیال یا عقیدہ کہ یہ ہندی قدیم زمانے سے موجود ہے، صحیح نہیں ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ اس کے ادب کا آغاز امیر خسرو (۱۲۵۳ء تا ۱۳۲۵ء) سے ہوتا ہے۔
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ
متعلقہ تحریریں:
اردو زبان کے مختلف نام اور مراحل
اردو زبان کا نام اور مجمل تاریخ