• صارفین کی تعداد :
  • 3058
  • 1/16/2010
  • تاريخ :

سورہ یوسف (ع ) 53  ویں آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

و ما ابرّی نفسی انّ النّفس لامّارۃ بالسّوء الّا ما رحم ربّی انّ ربّی غفور رّحیم


اور [ یوسف (ع) کہتے ہیں ] میں کبھی اپنے آپ کو بری ( و آزاد ) نہیں چھوڑوں گا کیونکہ نفس ہمیشہ برائیوں کی طرف حکم دیتا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے ( اور ) یقینا" میرا پروردگار بڑا بخشنے اور رحم کرنے والا ہے ۔

عزیزان گرامی ! آپ کے پیش نظر ہے کہ جب حضرت یوسف (ع) کو شاہ مصر نے قید خانے سے آزادی دینا چاہی تو انہوں نے شرط لگا دی کہ پہلے مجھے قید میں ڈالنے کے لئے مجھ پر مصر کی عورتوں کی طرف سے لگائے گئے الزام کی تحقیق ہونی چاہئے تا کہ لوگ میری آزادی کو شاہی رحم و کرم کا نام نہ دیں بلکہ میری بے گناہی ان پر ثابت ہوجائے اور پھر شاہ کے سامنے مصر کی عورتوں نے ان کے حسن کردار کا اقرار کیا اور زلیخا نے بھی اپنا گناہ سر دربار تسلیم کرلیا تو اب جیسا کہ آیت میں اشارہ ہے، جناب یوسف (ع) نے اپنی بے گناہی پر اکڑنے اور افتخار کرنے کے بجائے عجز و ناتوانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں خود کو اس منزل میں " بری" قرار  نہیں دے سکتا کہ پارسائی کا دعوی کروں، میں بھی نفس رکھتا ہوں اور نفس برائیوں کا حکم بھی دیتا ہے مگر میرا پروردگار مجھ پر مہربان ہے اور مجھے نفسانی احکام پر عمل کرنے سے بچا لیتا ہے اور میں خواہشوں میں پڑکر عقل و منطق کی راہ و روش اور الہی قوانین و احکام کے تقاضوں کو پس پشت نہیں ڈالتا یہ خدا کا بڑا لطف ہے جو انسان کو  نفس کی سرکشی اور گناہ و انحراف سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ اپنے بندوں کے حق میں خدا بڑا غفور و رحیم ہے ۔

قرآن کریم میں، انسانی نفس کے لئے مراحل و نتائج کے لحاظ سے کئی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں سب سے پہلا مرحلہ حیوانیت کا مرحلہ ہے جہاں انسان حیوانی خواہشوں کا اسیر ہو کر نفسانی احکامات پر عمل کرنے لگتا ہے اس مرحلے میں نفس کو " نفس امارہ " قرار دیا گیا ہے اس کے بعد کے مرحلے میں، غلط خواہشات پر ملامت کرنے والے نفس کو " نفس لوامہ " کہا گیا ہے جو انسان کو برائیوں سے روکتا ہے یا گناہ ہوجائے تو فورا" توبہ و استغفار پر ابھارتا ہے اور انسان کو الہی عذاب سے بچا لیتا ہے اور اس کے بعد بالاترین مرحلے میں وہ نفس جوخدا کے نبیوں، ولیوں اور عارفوں سے مخصوص ہے نفس مطمئنہ سے تعبیر کیا گیا ہے چنانچہ نفس مطمئنہ کے مالک، سخت ترین حالات اور پریشانیوں میں بھی الہی آزمائشوں پر کھرے اترتے ہیں اور کسی بھی حالت میں شکوے اور شکایت سے کام نہیں لیتے ۔ اس واقعہ میں بھی حضرت یوسف (ع)، اپنی بے گناہی ثابت ہوجانے کے باوجود، کسی غرور و تکبر میں پڑے بغیر اپنی عاجزي اور ناتوانی کا اقرار کر رہے ہیں کہ خواہش میرے نفس میں بھی تھی اور زلیخا کی طرف کھنچاؤ میرے نفس میں بھی تھا مگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے دامن لطف میں لے کر محفوظ رکھا اور میں حیوانی ہوس میں گرفتار ہونے سے بچ گیا ۔ یہ خدائے غفور و رحیم کا فضل و احسان ہے چنانچہ آدمی کتنا ہی بلند کردار کیوں نہ ہو اس میں یہ احساس ضروری کہ کردار کی عظمت، رحمت خدا کا ہی نتیجہ ہے ۔

 

اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف ۔ع ۔ (43) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (  41 تا 43 ) آیات کا خلاصہ