سورہ یوسف ۔ع ۔ ( 41 تا 43 ) آیات کا خلاصہ
بعض لوگوں کے خواب بھی ان حقائق کا انکشاف کرتے ہیں جو آئندہ رونما ہوتے ہیں چنانچہ اللہ نے جن لوگوں کو خوابوں کی تعبیر کا علم دیا ہے وہ تعبیر بیان کرتے ہیں اگرچہ بعض وقت خواب کی تعبیر تلخ و ناگوار بھی ہوتی ہے ۔
خدا کے انبیاؤ اولیا ، خیالی باتیں نہیں کرتے ، خدا کے عطا کردہ علم کے تحت باتیں کرتے ہیں چنانچہ ان کے گمان بھی یقین کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ ایک قیدی کے جیل سے رہا ہونے کے سلسلے میں قرآن نے یوسف علیہ السلام کے گمان کی بات کی ہے جبکہ یوسف علیہ السلام کو علم تھا کہ اس کو قید سے نجات ملے گي اور دربار میں دوبارہ ساقی کے فرائض انجام دے گا۔
لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور مظلومیت سے نکلنے کی تاکید ایک قدرتی امر ہے لیکن خدا کے اولیاء خدا پر توکل کرتے ہیں ۔سہو و نسیان ، انسانی عادات میں سے ہے لیکن خدا کے نبی سے وعدہ خلافی شیطانی عمل ہے اسی لئے قرآن نے کہا ہے کہ قید سے آزادی کے بعد شیطان نے قیدی پر تسلط کرکے حضرت یوسف (ع) سے کیا ہوا وعدہ بھلا دیا ۔
عالم خواب میں ، اشیاء ہوں یا حیوانات سبھی تمثیلی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں ، لاغر گائے قحط اور تر وتازہ موٹی گائے فراوانی کی نشانی ہے ، نیز یہ کہ ہر شخص کے سامنے خواب نہیں بیان کرنا چاہئے کیونکہ ہر شخص صحیح تعبیر نہیں دے سکتا ۔
اردو ریڈیو تہران