کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے ( حصّہ دوّم )
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
انہی متضاد جذبوں اور میلانات کے تابع ایک جانب جدید عالمی سرمایہ داری اور جدید نو آبادی نظام گلوبلائزیشن، ڈبلیو ٹی او، ورلڈ اکنامک فورم کے رکھوالے ہیں جو اپنے طبقاتی، کاروباری، نسلی مفادات کے حصول کے لئے اس دنیا کے امن کو داؤ پر لگانے،کمزور قوموں پر جنگیں مسلط کرنے اور کسی بھی حد سے گزر جانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
جب کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بتاتا ہے کہ ہزاروں سائنس داں، محققین، ماہرین علوم اور دانشور شب و روز اس کرہٴ ارض پر خوشحالی، ترقی، امن اور استحکام کے لئے اپنی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ ان سب کی کاوشیں ایک نئی دنیا کی تشکیل اور کائنات کی نئی وسعتوں کی نوید دے رہی ہیں۔
آنے والے دور کا ایک خاکہ یہ ابھرتا دکھائی دیتا ہے جس میں سپر کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی راہیں، سائنسی علوم کی جاری تحقیق کے حیرت انگیز انکشافات، زرعی ، صنعتی، مالیاتی، طبی اور انجینئرنگ، بائیو ٹیکنالوجی، مینو ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت کے استعمال اور ڈی این اے کی تربیت اور مطالعہ سے نئے ماڈیولز کی تشکیل اس کرہٴ ارض پر ایک نیا سائنسی ، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔
ایک محتاط جائزے کے مطابق آئندہ پچیس برسوں میں اس دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاویز کر جائے گی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے خوراک اور انرجی کی ضروریات میں بھی اضافہ ہو گا اس کی تکمیل کے لئے سولر انرجی اور ہوا سے انرجی حاصل کی جائے گی۔ دنیا کے دو سو سے زائد تحقیقی اداروں کے سائنس داں انرجی کے مختلف متبادل کے حصول پر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ امکان ہے کہ سولر انرجی اور ہوا سے حاصل کردہ انرجی پر زیادہ انحصار کیا جائے گا۔ اس سے ماحولیاتی مسائل حل کرنے، آلودگی کم کرنے اور گلوبل وارمنگ کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا، اس کے علاوہ سائنس داں آلودگی پر قابو پانے کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پلاسٹک میں تبدیل کرنے کا تجربہ بھی کر رہے ہیں اسی نوعیت کے تجربات سے امید کی جارہی ہے کہ زمینی اور فضائی آلودگی کو کم سے کم کیا جا سکے گا۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے مریخ پر انسانی حیات کی بقا کو ممکن بنانے کے لئے جو پروگرام ترتیب دیا ہے اس سے سائنس دانوں کو امید ہے کہ مستقبل میں مریخ پر بھی انسان دوست ماحول تیار کیا جا سکے گا۔ ایسے میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ آیا ہم وطن عزیز پاکستان کے معاشروں کو آئندہ آنے والی تبدیلیوں اور بدلتے دور کے تقاضوں سے ہمکنار کر سکیں گے۔
اس سوال کا دو ٹوک جواب یقیناً مشکل ہے مگر زمینی حقائق، عالمی معیشت کی جدلیات اور نئی نسل میں تبدیلی کی امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ہمارے معاشرے مثبت تبدیلیوں سے ہمکنار ہونے اور اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت برقرار رکھنے کی پوری امکانی قوت رکھتے ہیں مگر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی تبدیلی کے لئے ذہنی اپج کی تبدیلی بھی ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے معاشروں کی ترقی اور استحکام تعلیم، تحقیق کے فروغ، جمہوری اقدار کے استحکام، انصاف کی فراہمی، طبقاتی تفریق کے خاتمے کا انسانی حقوق کی ضمانت اور قدرتی وسائل پر محدود طبقے کی اجارہ داری کے خاتمے سے وابستہ ہے۔
تحریر : ظفر محی الدین ( روزنامہ جنگ )