کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
اکیسویں صدی کی شروعات نے پوری انسانیت کو ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے ایک طرف مہلک ہتھیاروں کے انبار استعماری قوتوں کا سفاکانہ استحصال، مذہبی اور نسلی تعصبات، طبقاتی تفریق میں اضافہ سماجی ناہمواری قدرتی ماحول کی بے ترتیبی سمیت غربت، پسماندگی، بدامنی، مایوسی، غیر یقینی کیفیات اور آدمیت کے عدم احترام جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے جب کہ دوسری طرف جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید تحقیق ، نئی ایجادات اور نئے انکشافات سے ترقی و کامرانی کی نئی راہیں کھلتی دکھائی دیتی ہیں جن سے گزر کر ایک نئی دنیا کی دریافت اور کائنات کی نئی وسعتوں سے متعارف ہونے کے دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس لئے جاری اکیسویں صدی کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ صدی آئندہ بڑی تبدیلیوں، نئے امکانات، نئی امیدوں، نئے خدشات اور حیرت انگیز انکشافات کی صدی ہے۔
اس گومگو، امکانات اور خدشات کی صورت حال میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے عوام کی ایک بڑی تعداد غربت، پسماندگی، ناانصافی، دہرے معیار ، مہنگائی اور انتہا پسندی سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی نئی نسل کی اکثریت ڈپریشن، غصہ، اعصابی دباؤ کی وجہ سے منشیات کے استعمال، جرائم کے ارتکاب اور تشدد پسندی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ انہیں اپنے اردگرد سوائے نفسانفسی، افراتفری اور اپنی بقا کی جدوجہد اور بے ہنگم دوڑ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس لئے جاری حالات میں ترقی پذیر ممالک اور ان کی نئی نسل کے ذہنوں میں ابھرنے والے خدشات، امکانات اور وسوسے بے وجہ نہیں ہیں مگر ان تلخ حقائق کے باوجود غیر یقینی حالات کے پس منظر میں بعض حقائق نظروں سے اوجھل ہیں جس کی وجہ سے ہم آنے والے دور کے بارے میں کوئی واضح تصور قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں ہمیں ناامیدی اور مایوسی کا دامن چھوڑتے ہوئے یہ سوچنا ہوگا کہ آیا آئندہ چند عشروں بعد یہ دنیا کیسی ہو گی؟ اس سوال کا جواب بدلتی دنیا کے بدلتے تقاضوں ، نئے رجحانات اور میلانات کو سمجھنے کے بعد ہی میسر آسکتا ہے۔ جیسا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کائنات کی سب سے عظیم اور حسین تخلیق خود انسان ہے انسانی فطرت تضادات کا مجموعہ ہے۔اس میں نفرت محبت، جبر رحم، ظلم انصاف، حرص سخاوت، حسد ایثار، دوستی انتقام سب کچھ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
تحریر : ظفر محی الدین ( روزنامہ جنگ )
متعلقہ تحریریں:
يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد
اسلام میں طلاق