ہم اور ہماری عید (حصّہ چهارم)
ہمیں قرآن و سنت سے واضح ہدایات ہیں کہ قربانی کا گوشت کن لوگوں میں اور کس طرح تقسیم کرنا چاہیے مگر ہم نے یہاں بھی اب اپنے من پسند طریقے رائج کئے ہیں۔ گوشت تقسیم کرتے وقت ہمارے ذہن میں بستی کے با اثر لوگ پہلے آتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی ہم خاص طور پر یاد رکھتے ہیں جن کے ساتھ ہمارے مراسم اچھے ہوتے ہیں یا جن کے ساتھ ہمارے مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی خدمت میں ہم گوشت کے بڑے بڑے حصے پیش کرتے ہیں اور بچے کھچے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہمسایوں اور غریبوں میں بانٹتے ہیں۔ ہم اپنی جہالت کا حیران کن مظاہرہ اس وقت کرتے ہیں جب ہم اپنے کسی نئے سمبندھی یا دوسرے رشتہ دار کے ہاں گوشت کی پوری ران بھیج دیتے ہیں جس کے ساتھ سونے چاندی کے زیورات بھی ہوتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہم پکائے ہوئے گوشت کی دیگیں عالیشان گاڑیوں لاد کر سمبندھی کے گھر روانہ کرتے ہیں تاکہ ان پر ہماری آسودہ حالی کی ہیبت طاری ہو جائے ۔ یہ ہماری خام خیالی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رشتے گوشت کی ران یا ہیرے جوہرات سے جڑے رہتے ہیں اور ہم شاید یہ آس بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہمیں فلاحِ آخرت کی ضمانت بھی ملے گی۔ کیا ہمارا ضمیر ہم سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ آخر کونسی چیز ہمیں ایسا کرنے پر اکساتی ہے اور ہم کیوں قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس پر صرف اور صرف شیطان ہی ہماری پیٹھ تھپ تھپا سکتا ہے اور خدا بھی ناراض اور رسول بھی دل ملول۔ واہ قربانی ہو تو ایسی ہو۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا اور رسول کو راضی کرنا ہی ہر عبادت کا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر عبادت یا دوسرا کوئی دینی کام جسے انجام کو پہنچا کرشیطان خوشیاں منائے اور ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم افسردہ ہو جائیں وہ عبادت کوئی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت کے نام پر ایک مذاق ہے ۔ اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کیا خسارہ ہو گا کہ ہم عبادت کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں مگر ہمیں اللہ کی رضا حاصل نہ ہو جائے۔ ایسی عبادت کرتے کرتے ہم اپنے معبود کو بھی شرمندہ کرتے ہیں اور ہمیں حقیقت کا یہ کڑوا گھونٹ اپنے حلق سے اتارنا ہی ہو گا کہ ہم درا صل عبادت کے نام پر غلط کاریاں پھیلا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید ہم کسی دوسری امت کے لوگوں میں شامل ہیں ۔ یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا ہم امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے جس نے وہ سارا کچھ کرنے کا عہد کیا ہے جسے پیغمبرانہ مشن کو بس تکلیف پہنچتی ہے۔ کیا ہماری زندگیوں میں کبھی ایسی عید بھی آئے گی جب ہم جانوروں کو قربان کرنے کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ کی رضا کی خاطر قربان کر دیں گے۔ عزیمت کی مثال دیکھیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہوئی ۔ اسے پال پوس کر جوان کیا تو حکم ملا کہ یہ میں نے دیا ہے اسے ذبح کرکے مجھے واپس لوٹا دو۔ ایثار دیکھئے اور اللہ کے سامنے خود سپردگی کا جذبہ دیکھئے کہ عجب بشاش تھے دونوں رضائے رب عزت پر تاؤمل یا تذبذب کچھ نہ تھا دونوں کی صورت پر ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی رضا کی خاطر اپنے جوان بیٹے کی گردن کاٹ رہا ہے اور ادھر غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہم مسلمان نہ جھوٹ اور بے ایمانی چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ مال وزر کی حرص قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہم تو عید پر کسی بکرے کو قربان کرتے ہیں اور ہمارے اندر جو شیطان پل رہا ہے اور جو ہمارے روح کی پاکیزگی کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے اس کا گلہ کاٹنے کی ہم کبھی سوچتے بھی نہیں ہیں اور اگر کبھی سوچ بھی لیا تو کیا ہو گا کیونکہ ہمارے ایمان کی چھری اتنی کند پڑ چکی ہے کہ اس کا ایک رونگٹھا بھی کٹنے نہیں پائے گا۔ عید پر قربانی کرنے کا پیغام یہی ہے کہ یہ قربانی سنت حضرت ابراھیم ہے جسے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور بکرے کی قربانی سے پہلے ہمیں اپنے نفس کو قربان کرنا ہے تب جاکے جو جانور ہم قربان کریں گے وہ پھر اللہ کے دربار میں قدرو قیمت میں جانور سے بڑھ کر کوئی اور ہی چیز ہوگی۔
تحریر : صابر حسین ایثار ( کشمیر عظمی ڈاٹ نیٹ )
متعلقہ تحریریں:
عید الفطر اور عید قربان کی نماز
قربانی سے پہلے ایک بکرے کے تاثرات