بابری مسجد کی شہادت اور برہمن واد
اسلام اور شرک دو ایسی چیزیں ہیں جن میں کبھی اتحاد اور بقائے باہم کی فضا نہیں بن سکتی ۔ دونوں فطرتا ایک دوسرے کی ضد ہیں جن میں کشمکش ناگزیر ہے۔6 /دسمبر 1992 کی تاریخ اسی کشمکش کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔
یہ وہ دن ہے کہ جب ہندو انتہا پسندوں نے حکومت اور سرکاری مشینری کی سرپرستی اور نگرانی میں دن کی روشنی میں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد کوشہید کرڈالا تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے یہ سب سے بدنما داغ ہے جسے اہل اسلام کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔
ہندوستان کے طول وعرض میں یہ سازشیں ایک مکمل منصوبہ اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں جن کو اسلام دشمن طاقتوں نے بڑی باریک بینی سے بنایا ہے اور اب اس پر پورے عزم وجزم کے ساتھ عمل پیرا ہیں ۔ ہندوستان کے مسلمان اس نام نہاد آزادی کے ان 61 سالوں میں تقریباً 30 ہزار سے زائد مسلم کش فسادات کی آگ جھیل چکے ہیں۔
ان کو سماجی ،اقتصادی اور سیاسی ہر طرح سے ختم کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے ۔ ایک طرف سے یہ کوششیں تو دوسری طرف سے بے بنیاد پروپیگنڈہ اہل باطل مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کے لئے ہمیشہ کرتے آ رہے ہیں ۔ عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بابری مسجد کا ایشو صرف ایک مسجد کا معاملہ ہے اس کیلئے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں اور اب تو اس پر خواص میں سے بھی بعض لوگ ایمان لاتے نظر آنے لگے ہیں ۔ جب کہ اسلام میں مساجد کافی اہمیت کی حامل ہیں انہیں بیت اللہ (اللہ کا گھر) کہا گیا ہے ۔
بابری مسجد ہندوستان میں دراصل اسلام اور شرک کی کشمکش کا ایک عنوان ہے اور ہندو احیاء پرست تحریکیں رام مندرکی تعمیر کو بھارت کے ہندوراشٹر بنانے کے عمل میں سنگ میل قرار دیتی ہیں۔ اس پورے معاملے کو سمجھنے کیلئے ہمیں ان باتوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔
وہ مذاہب جو دنیا کو ایک مکمل نظام حیات دینے کے دعویدار ہیں ،تین ہیں
۱۔یہودیت،۲۔عیسائی،۳۔اسلام
کوئی مذہب اس وقت تک نہ تو دنیا کو مکمل نظام حیات دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کا دعویدار ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کے پاس یہ تین چیزیں نہ ہوں ۔
(۱)ایک ایسی شخصیت جو پوری قوم کے نزدیک مذہبی شخصیت ہو اور اس کی پیروی فرض قرار پائے ۔
(۲)ایک ایسی کتاب جو جملہ امور میں رہنمائی کرسکے اور اس کی حیثیت بنیادی ماخذ کی ہو ۔
(۳)ایک ایسا مرکز جس سے وہ قوم اپنے روحانی اور مذہبی جذبات وابستہ رکھ سکے۔
یہود کے پاس یہ تینوں چیزیں ،حضرت موسیٰ (ع) ، توریت اور ھیکل سلیمانی کی شکل میں موجود ہیں۔عیسائیت کے پاس بھی حضرت عیسی ،انجیل اور ویٹکن سٹی کی شکل میں یہ تینوں چیزیں موجود ہیں۔ اسلام میں بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،قرآن اور خانہ کعبہ کی شکل میں موجود ہے ۔
ہندو ازم ایک ایسا مذہب ہے جس کی تاریخ بھی ڈھنگ سے مدون نہیں ہے لیکن اب یہ بھی دنیا کو ایک نظام حیات دینے کا دعویدار ہوگیا ہے جب کہ مذکورہ تینوں چیزوں میں سے ایک بھی اس کے پاس متفق علیہ نہیں ہے۔
تحریر : ابو ظفر عادل اعظمی ممبئی ( عالمی اخبار ڈاٹ کام )
متعلقہ تحریریں:
یوم آزادی برصغیر مبارک باد
جواہر لال نہرو کی زندگی پر خصوصی اشاعت