انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد ( حصّہ دوّم )
انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد
اگر کوئی شخص کھے: ایک کافر و ملحد بھی کبھی کبھی صاحب فضیلت ھوتا ھے تو یہ اس کی ظاہری فضیلت ھوتی ھے،جس کی بنیاد نفسانی اصول نھیں ھوتے ھیں، ان کے اندر یہ اچھائیاں معاشرہ کے خوف کی وجہ سے پیدا ھوتی ھیں، یا حکومتی قوانین کے خوف سے پیدا ھوتی ھیں، چنانچہ اگر یہ دونوں چیزیں سامنے نہ ھوں اور وہ آزاد ھوں، تو پھر وہ کسی بھی طرح کے اخلاق کی رعایت نھیں کریں گے ، کسی کی بے عزتی کریں گے اور کسی کا مال لوٹیں گے، یا دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ھوں گے، کیونکہ جب نفس پر شھوت کاغلبہ ھوجاتا ھے تو پھر وہ کسی بھی برائی سے پرھیز نھیں کرتا اور برائی میں غرق ھوتا ھوا نظر آتا ھے، پس یہ فضیلت اس شخص میں کیسے جلوہ گر ھوسکتی ھے جو اپنے کو فانی حیوان سمجھتا ھے؟
لہٰذا حکومت کی طرف سے بنائے گئے قوانین یہاں تک کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض افراد کو خصوصی چھوٹ دی جاتی ھے تاکہ وہ موجودہ شرائط کے ساتھ اپنی زندگی آرام سے گزار سکیں، اور یھی انسان کا کردار معاشرہ میں اثرانداز ھوجاتا ھے جس کی بنا پر انسان دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ھے۔
پس مذکورہ باتوں کے پیش نظر انسان کے اندر ایسے اندرونی اسباب ھوتے ھیں
اور اس کا ضمیر اور وجدان ھوتا ھے جو انسان کے کرد ار کو سنوارتا ھے اور یھی انسان کا ضمیر اس کے سفر و حضر اور خلوت و بزم میں ادارہ کرتا ھے، اور چونکہ انسان کی روح اس کو اپنے اختیار میں رکھتی ھے، کیونکہ روح ایک بلند اور عالی حقیقت ھے جو انسان کو کمال و بلندی کی طرف لے جاتی ھے، لیکن کبھی کبھی انسان اپنے جسم کے لئے روح کو حاکم بنادیتا ھے کیونکہ یہ ایک مشکل کام ھے اور اس میں بہت زیادہ روحانی ریاضت کی ضرورت ھے، یہ وہ کام ھے جس کو اس شخص کے علاوہ اور کوئی انجام نھیں دے سکتا جو نفس اور روح کے ھمیشہ ھمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ رکھتا ھو، اور یھی اعتقاد انسان کے ضمیر کو نیک اور اچھے کاموں کے لئے ابھارتا ھے، تاکہ اس کو آخرت میں ثواب مل سکے، اسی طرح یھی عقیدہ انسان کو ھوائے نفس کی اطاعت اور آخرت کے عذاب کے خوف کی بنا پر گناھوں اور برے کاموں سے روکتا ھے۔
یہ اس لئے ھے کہ انسان کا ضمیر برائیوں پر ملامت اور سرزنش تو کرسکتا ھے لیکن اس کو عذاب نھیں دے سکتا، اسی طرح انسان کا ضمیر اس کو وعظ و نصیحت کرتا ھے لیکن کبھی بھی اس کے لئے توجیہ نھیں کرسکتا، کیونکہ انسان ھوائے نفس کے مقابلہ میں کوئی نفع و نقصان نھیں پہنچاسکتا، اور جب اس کا غلبہ ھوجاتا ھے تو اس کو ناکارہ بنادیتا ھے اور پھر انسان لوگوں کی نگاھوں سے بچ کر جو چاہتا ھے وہ انجام دیتا ھے۔
لہٰذا جب ایک طرف سے حکومتی قوانین اور معاشرہ انسان کو برائیوں سے روکنے والا ھے اور دوسری طرف خود انسان کا ضمیر اندر سے انسان کو برائیوں سے روکتا ھے تو یہ دونوں چیزیں قدر معین کی طرف ہدایت کرتی ھیں، اور خداوندعالم وروز قیامت پر ایمان کے ذریعہ ان دونوں کے درمیان اتفاق قائم کردیتا ھے، جس کے ذریعہ انسانی نفس میں قول و عمل میں دشمن کے رقیب ھونے کی بنا پر تربیت اخلاقی ھوجاتی ھے، اور کوئی بھی بندہ مومن اپنے رقیب و دشمن سے فرار نھیں کرسکتا چونکہ خداوندعالم ہر چیز پر محیط ھے اور رگ گردن سے زیادہ قریب ھے، ظاہری اور باطنی چیزوں کو جانتا ھے، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا حساب کرنے والا ھے، کوئی بھی ذرہ اس سے مخفی نھیں ھے، اسی وجہ سے بندہ مومن کو اپنی ذمہ داری کا احساس ھونا چاہئے، خدا کے عقاب سے ڈرنا چاہئے، یہاں تک کہ اگر بندہ لوگوں کی نظروں سے چھپ کر بھی کوئی کام انجام دیتا ھے تو خود اس کے نفس سے جواب طلب ھوگا، چاھے قانون اور حکومت کی سزا سے محفوظ رھے، کیونکہ حکم خدا اور اس کی حکومت سے فرار ممکن نھیں ھے۔ [1]
[1] جیسا کہ مولائے کائنات دعاء کمیل میں فرماتے ھیں، ”ولا یمکن الفرار من حکومتک“۔ (تیری حکومت سے فرار کرنا ممکن نھیں ھے) (مترجم)
https://www.alimamali.com