انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد
قارئین کرام ! یہ بات ظاہر ھے کہ انسانی ہدایت و راہنمائی کی ضرورت کے پیش نظر بعثت انبیاء ضروری ھے اور یہ اسی صورت میں کارساز ھوسکتی ھے کہ جب اس ہدایت کو نافذ کرنے والی ایک بہترین قدرت ان کے پاس ھو، تاکہ انسان ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے ، یہ الٰھی تعلیمات و احکام انسان کو آمادہ کر دیتی ھیں جس کی وجہ سے انسان ہدایت و راہنمائی کے ساحل پر پہنچ جاتا ھے، بغیر اس کے کہ اس کی ذرہ برابر بھی مخالفت اور تجاوز کرے، لیکن اگر وہ قوت اور قدرت نہ ھو تو پھر یہ تعلیمات اور احکام صرف موعظہ بن کر رہ جائیں گے، جس کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور انسانی زندگی میں بے اثر ھوجاتی ھے۔
جب ھم بعض دنیاوی قوانین کو دیکھتے ھیں (جیسے سزائے موت، عمر قید، پھانسی اور جلا وطن کرنا وغیرہ) تو نفس پر کنٹرول کرتے ھیں اور یہ قوانین نیک اور اچھے کاموں کی طرف ہدایت کرتے ھیں، لیکن ھم خارج میں دیکھتے ھیں کہ یہ قوانین انفرادی و اجتماعی شرّ و فساد کو بالکل ختم کرنے میں ناکافی ھیں اور نہ ھی ان کے ذریعہ انسانی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کمال کا حصول ممکن نھیں۔
یہ قوانین اس بنا پر معاشرہ سے شر و فساد کو ختم کرنے میں ناکافی ھیں کہ قوانین جہاں مجرمین و اشرار کو بڑی سے بڑی سزا دینے میں کفایت کرتے ھیں وھیں پر جب سیاسی حضرات کی باری آتی ھے تو ان قوانین پر عمل نھیں ھوتا، حکام وقت اپنے خود ساختہ قوانین کے سایہ میں لوگوں کا مال ہضم کرتے ھوئے نظر آتے ھیں۔
اس کے بعد یہ بات بھی واضح ھے کہ انسان کی زندگی میں ظاہری اسباب بھی موثر ھوتے ھیں جیسا کہ اکثر حکومتوں میں سزائی قوانین مرتب کئے جاتے ھیں، اور یہ قوانین اس حکومت کی طاقت کے زور پر نافذ کئے جاتے ھیں ، لیکن اگر کسی حکومت میں قوانین نافذ کرنے کی طاقت ھی نہ ھو تو اس ملک میں بدامنی اور فساد پھیل جاتاھے اور پھر ان قوانین کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور نہ ھی ان قوانین سے کسی کو خوف و وحشت ھوتی ھے اور نہ ھی کوئی ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ھے۔
لہٰذا جب ھم نے یہ بات مان لی کہ قوانین ھی کے ذریعہ مجرمین کی تعداد کم کی جا سکتی ھے، اور انھیں قوانین کے ماتحت حکومت چل سکتی ھے، لیکن کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ھیں جہاں پر انسان تنہائی کے عالم میں ھوتا ھے اور وہاں پر اس حکومت کی رسائی نھیں ھوتی اور نہ ھی وہاں تک قانون کی رسائی ھوتی ھے اور ان شاذ و نادر جرائم کو حکومت فاش نھیں کرپاتی ، مثلاً انسان نفسانی شھوات کا شکار ھوجائے اور اس پر سوار شیطان ھوجائے:
<وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُضِلَّہُمْ ضَلاَلًا بَعِیدًا>[1]
”اور شیطان تو یہ چاہتا ھے کہ انھیں بہکا کے بہت دور لے جائے “۔
<إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا>[2]
”کیونکہ شیطان تو ایسی ھی باتوں سے فساد ڈلواتا ھے اس میں شک ھی نھیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ھوا دشمن ھے“۔
حوالہ جات :
[1] سورہٴ نساء آیت۶۰۔
[2] سورہٴ اسراء آیت۵۳۔
https://www.alimamali.com
متعلقہ تحریریں:
حیات اخروی پر ایمان کی بنیاد
ابدی زندگی اور اخروی حیات