مہاتما گاندھی
بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنماء اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ہے۔ گاندھی کا جنم دن چھٹی کا دن ہے اور گاندھی کی مورت بھارت کے نوٹوں پر موجود ہے۔
گاندھی گجرات بھارت میں دو اکتوبر 1869 میں پیدا ہوۓ۔ لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ کچھ وقت جنوبی افریقہ میں گزارا اور وہیں سیاست میں آۓ۔ ہندوستان آ کر انھوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور سماجی بیداری کا آغاز کیا۔ آزادی کے لیۓ عدم تشدد انکا اہم ہتھیار تھا-
انہیں برطانیہ کی سامراجی حکومت کے خلاف جد وجہد اور ہندوستان کے محروم عوام کی قیادت کی بناء پر مہاتما کا لقب ملا ۔ مہاتما کے معنی عظیم روح کے ہیں ۔
مہاتما گاندھی کو 1922 ع میں " موت یا آزادی " کا نعرہ لگانے کی وجہ سے 6 سال قید کی سزا دی گئی-
انہوں نے رہائی کے بعد برطانوی سامراجیوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کی۔
ان کے اس اقدام سے برطانوی سامراج کو شدید نقصان پہنچایا ۔بالآخر مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہندوستان نے 15 اگست سنہ 1947 ع کو آزادی حاصل کی۔۔ آزادی کے بعد 30 جنوری 1948 کو انہیں نئی دہلی میں قتل کر دیا گیا۔
انسانی تاریخ کے صفحات آ ج بھی ان عظیم انسانوں کے کارناموں سے جگمگا رہے ہیں جنھوں نے انسانی زندگی کی بقا اورترقّی کی خاطر اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ایسی ہی تاریخ ساز شخصیات میں موہن داس کرم چند گاندھی کا شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے ہمہ جہت شخصیت اور گراں قدر کارناموں نے انھیں بابائے قوم اور مہاتما گاندھی کے نام سے مقبولیت کا تاج پہنایا۔ عام آ دمی کے ذہن میں مہاتما گاندھی کی شخصیت کا پہلا تاثر ایک بے سر و ساماں درویش کا ہے جس نے اپنے نظریۂ عدم تشدّد کی بنیاد پر جنگِ آ زادی کا صور پھونکا اور اس ملک میں قدم جما چکی برٹش سر کار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
گاندھی جی کی شخصیت کے اس انقلابی پہلو سے قطع نظر ہم ان کیی خیالات و افکار کا جائزہ لیں تو ان کے ہاں ہمیں ایک جامع اور مربوط نظامِ زندگی کے شواہد ملتے ہیں۔ مہاتما گاندھی ایک قابل رہنما ،بہترین انسان اور مفکّر بھی تھے وہ فلسفی نہ تھے لیکن انھوں نے دنیا کے سامنے ایک ایسا طرزِ زندگی اور مسائلِ حیات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایسا موثّر طریقۂ کار تجویز کیا جس کی افادیت دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے ۔ گاندھی جی کے نظریات میں سب سے اہم اہنسا یعنی عدم تشدّد ہے جسے انھوں نے باضابطہ ایک طریقۂ حیات قرار دیا ہے۔
تشدّد آج نہ صرف قومی پیمانے پر بلکہ عالمی سطح پر ایک بھیانک مسئلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مختلف طبقات ،ممالک ،ذاتوں اور مذاہب کے درمیاں غیر ہم آہنگی نے پوری دنیا میں تشدد کی لہر دوڑا دی ہے اور ساری دنیا اس مسلہ کا حل تلاش کر رہی ہے۔ گاندھی جی کی تقریروں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ذات،مذہب علاقائیت ،رنگ و نسل اور لسانی سطح پر مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی ایک دیانت دارانہ کوشش کی تھی۔ قومی یکجہتی کا یہی نظریہ ان کی فکر کا بنیادی پتّھر ہے جس پر وہ ایک خوشحال قوم کی تعمیرِ کر نا چاہتے تھے۔
گاندھی جی کی قومی یکجہتی کا نظریہ اس قومی روایت پر مبنی معلوم ہو تا ہے کہ جس کے مطابق یہ پو ری کا ئنات خدا کا کنبہ ہے ۔ گاندھی جی کی آ فاقی فکر نے انھیں رنگ و نسل ،ذات وبرادری اور علاقائیت کے امتیازات سے اوپر اٹھ کر سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اسی انسانی دوستی کا پر تو ان کے خیالات پر پڑا۔ شاید اسی لئے اردو کے مشہور شاعر مجاز لکھنوی نے گاندھی جی کے انتقال پر ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا |
انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا |
تحریر : محمّد اسد اللہ (بزم اردو)