• صارفین کی تعداد :
  • 1688
  • 8/22/2009
  • تاريخ :

ایک دن (حصّہ دوّم )

کتاب

"وہ آئی پیلی ٹیکسی - - - - - "ککو چلائی۔

"اونہہ - مجو بھائی کوئی پیلی ٹیکسی میں آئیں گے وہ تو بڑی ٹیکسی میں آئیں گے آٹھ آنے میل والی میں۔"

رانی بولی۔

"اچھا؟ "

"اور کیا؟ "

"کچھ شرط لگاتی ہو - ؟ "ککو نے پوچھا۔

"ہاں - لگا لو - "

"اگر مجو بھائی پیلی ٹیکسی میں آئے نا تو تم مجھے اپنی پیلے پھولوں والی فراک دے دینا - "

"کون سی ؟ - وہ نایئلون والی؟ "رانی نے سوال کیا۔

"ہاں - "

"واہ - وہ تو ابھی پرسوں زکی آپا بوری بازار سے لائی ہیں - "

"پھر کیا ہے؟ شرط تو اچھی چیز کی لگاتے ہیں نا ؟ "ککو نے سر ہلا کر کہا۔

"لیکن زکی آپا نے تو فراک اس لیئے لے کے دی تھی کہ جب مجو بھائی کے ساتھ سمندر کی سیر کو جائیں تو پہنیں گے۔"

رانی نے بڑے فخر سے کہا۔

"وہ تو میں بھی پہن سکتی ہوں - لیکن خیر ہمیں کیا مجو بھائی تو بیچارے آئیں گے پیلی ٹیکسی میں - "

رانی جل کر بولی - "اچھا تو پیلی ٹیکسی میں آنے سے کیا ہوتا ہے۔ حبیب بھائی تو ہمیشہ سائیکل رکشا پر آتے ہیں - "

ککو سڑک کے قریب آہنی جنگلے کے ساتھ کھڑی تھی یہ سن کر جھٹ وہ قریب آ کر کہنے لگی۔

"حبیب بھائی مجو بھائی سے اچھے ہیں اچھے ہیں اچھے ہیں "

رانی فلیٹ میں چڑھنے والی بڑی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنا پھولوں والا ربن ٹھیک کر رہی تھی اس نے غصے میں آ کر بالوں میں سے ربن کھسوٹ لیا اور چلا کر بولی - "خاک اچھے ہیں۔ موٹے سے بھدے سے موٹا آلو پلپلا پیسہ لے کر گر پڑا۔"

"کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے۔ ہمیشہ ہمارے لیئے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں - ضرور - "ککو نے کہا۔

"تم ہو ہی لالچی بلی - "

"بلی ہو گی تُو - "

"تُو بڈھی شتر مرغ - "رانی نے چڑ کر کہا۔

"بس تمہارے تو ذہن پر ہمیشہ شتر مرغ سوار رہتا ہے اور کچھ دیکھا جو نہیں - "

"کیوں دیکھا کیوں نہیں۔ ابھی تو پچھلے ہفتے میں چڑیا گھر گئی تھی - "

ککو فخر سے بولی - "اور ہمیں حبیب بھائی جب ہم چاہیں لے جاتے ہیں - "

"یہاں کے چڑیا گھر میں رکھا ہی کیا ہے؛ - تم نے لاہور کا چڑیا گھر دیکھا ہوتا تو کبھی یہاں کے گاندھی گارڈن کا نام بھی نہ لیتیں - "

"بھلا وہاں اژدہا ہے کیا؟ "ککو نے جل کر پوچھا۔

"اژدہا نہیں ہے لیکن پیلی چتّیوں والا چیتا تو ہے۔ یہ بڑی بڑی نارنجی آنکھیں ہیں اُس کی تم دیکھو تو مارے ڈر کے مر جاؤ - جب میں پچھلی دفعہ اماں کے ساتھ لاہور گئی تھی تو مجو بھائی نے مجھے خود دکھایا تھا "- رانی بولی۔

"وہاں زیبرا بھی نہیں ہے نہیں ہے نا؟ - "

رانی بحث میں ہار رہی تھی اس لیئے اٹھتے ہوئے بولی - "زیبرا کون سا ایسا تحفہ ہے۔ یہاں نہ تو اُودبلاؤ ہے نہ سفید مور نہ بندر - یہ بھی کوئی چڑیا گھر ہے۔ ذرا بھی دیکھنے کوئی نہیں چاہتا - "

ککو کو غصہ آ گیا وہ چمک کر کہنے لگی - "اس دن تو مان گئی تھیں کہ یہاں کا چڑیا گھر زیادہ اچھا ہے - "

"اس دن تو تُو اپنی مونگ پھلیاں نہیں دیتی تھی اس لیئے میں نے کہہ دیا تھا۔"

ککو جھلا کر بولی "تم ہو ہی مطلبی اپنا مطلب ہوتا ہے تو سب کچھ مان جاتی ہو۔"

پیلی چھت والی ایک ٹیکسی بڑی شاہراہ کو چھوڑ کر فلیٹ والی سڑک کی طرف مڑی۔ اُن سے پرے والے بلاک کے پاس لمحہ بھر کے لیئے رُکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔

ککو تالیاں پٹیتی ہوئی چلائی "دیکھا - - - - - دیکھا - - - - - دیکھا - - - - - مجو بھائی ٹیکسی میں آئے ہیں پیلی ٹیکسی میں - - - - - ہاں - - - - - ہاں - - - - - ہاں -"

رانی کو مایوسی تو ہوئی۔ لیکن معظم کے آنے کی اُسے اتنی خوشی ہوئی کہ اُسے اپنی شکست کا احساس بھی نہ رہا۔ معظم نے کار کا پٹ کھولا اپنا اٹیچی اور کمبل اٹھایا اور باہر نکل آیا۔

"ہیلو رانی - - - ککو - "

دونوں بچیاں سلام کرکے آگے بڑھیں رانی تو معظم سے چمٹ گئی لیکن ککو ٹیکسی کا میٹر پڑھنے لگی۔

"دو روپے چار آنے - "

پھر اس نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا - "مجو بھائی اس بار تو آپ پورے چھ مہینے بعد آئے ہیں - ہے نا "

"ہاں کچھ دیر سے ہی آیا ہوں - "

"صبح آپ کا تار ملا تھا- میں تو تب سے باہر بیٹھی ہوں - "

ککو کرائے کی تفتیش کرکے لوٹی تو آتے ہی بولی۔ "آج ہمیں چھٹی تھی مجو بھائی لاسٹ سیٹرڈے - "

"اور دوسرے لوگ کہاں ہیں؟ "معظم نے بظاہر بے پروائی سے پوچھا۔

"وہ دیکھئے دیکھ رہی ہیں نیچے "

معظم نے چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔

تیز گلناری رنگ کے پردے ایک طرف کو کیے زرقا، لیلی اور شیریں کھڑی تھیں۔ لیلی اور شیریں کی دو دو چوٹیاں سامنے سینے پر لٹک رہی تھیں اور زرقا کی لمبی بوجھل چوٹی اس کے پہلو سے نکل آئی تھی۔ معظم خوب جانتا تھا طویل بالوں کا یہ سلسلہ جسم کے کس حصے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔

فلیٹ کے سامنے پیلی ٹیکسی کے پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے وہ تینوں بہنیں اپنے اپنے کپڑے درست کرنے میں مشغول تھیں۔ دُبلی پتلی لیلی نے اپنی زرد کاٹن کی قمیص دیوان پر پھینکتے ہوئے کہا - "توبہ رواج بھی کیا چیز ہے جب تک دل نہ اُوب جائے کوئی پیچھا ہی نہیں چھوڑتا - ان قمیصوں کا تھی کیا فیشن چلا ہے - "

شیریں قالین پر بیٹھی تھی وہ لیلی کی طرف چہرہ اٹھائے بغیر کہنے لگی۔ “اب تو ہر سڑک پر ہر لڑکی یہی پیلے کرتے پہنے نظر آتی ہے مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے سارے کراچی میں ایک ہی سیندھوری لڑکی گھوم رہی ہے ۔"

 

تحریر : بانو قدسیہ


متعلقہ تحریریں:

آگ کا دریا

ناول کيا ھے ؟

اردو کے پہلے ناول  مراۃ العروس پر ایک نظر