امام زمانہ کی طولانی زندگی قرآن و حدیث کی رو سے
امام زمانہ عج کی طولانی عمر مبارک کے حوالے سے گفتگو کی دو جہات ہیں:
(۱) جو لوگ کائنات کو ظاھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور محض اس کے مادی و عنصری جنبہ کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کائنات کے ماوراء اس نادیدہ خالق کو نہیں مانتے کہ جو بے پناہ علم و حکمت اور قدرت کا حامل ہے تو ایسے لوگوں سے امام کے وجود اور ان کی تمام صفات بالخصوص ان کی طولانی عمر کے بارے میں بحث کرنا فضول اور غیر معقول ہے ایسے لوگوں سے پہلے پروردگار کے وجود کے اثبات پر بحث ہو پھر دوسرے امور پر بحث ہو سکتی ہے ۔
(۲) وہ لوگ جو اس جہان مادہ کے ماوراء ایک بے پناہ علم اور قدرت کے مالک خالق پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ امام زمانہ کے وجود اور ان کی طولانی عمر پر بھی ایمان رکھتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے بہت سی عقلی و نقلی دلائل و شواھد ہیں کہ جو ہر انصاف پسند عاقل کے ایمان کے لئے کفایت کرتے ہیں ۔
جہاں تک اثبات امامت اور بالخصوص امام زمانہ کے وجود کے اثبات کا تعلق ہے اس پر بہت ہی واضح اور روشن دلیلیں ہیں کہ انسان کبھی بھی ان میں شک نہیں کرسکتا جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب نے فرمایا ان الصبح احناء لدی عینین، صبح کی روشنی ان لوگوں کے لئے ہے جو دو حق دیکھنے والی آنکھیں رکھتے ہیں، قرآنی آیات اور شیعہ و سنی کتابوں سے بہت سی روایات حق کے متلاشیوں کے لئے موجود ہیں جو بھی اہل ایمان ہیں اور ان کا اللہ تعالی کے علم و قدرت اور تدبیر و حکمت پر عقیدہ ہے انہیں ذرا بھی امام زمانہ کے وجود اور ان کی طولانی عمر میں شک نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کرام جو کہ اللہ تعالی کی سب سے زیادہ با عظمت و فضیلت مخلوق میں مثلا حضرت نوح ،عیسی ، یونس ، خضر علیھم السلام کی طولانی عمر کے حوالے سے آیات مجیدہ ہیں ،بلکہ اس حوالے سے تو بعض شرور مخلوقات مثلا شیطان ، فرعون و غیرہ کے بارے میں بھی ذکر آیا ہے مثلا:
(۱)حضرت نوح کے بارے میں پروردگار فرماتا ہے ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما فاخذھم الطوفان و ھم ظالمون، ترجمہ: ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں نو سو پچاس سال تک رہا پھر طوفان نے انہیں (قوم نوح کو) اس حال میں اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ وہ ظالم تھے۔ حضرت نوح اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث ہوئے تاکہ اپنی قوم کو معرفت خدا اور توحید کی طرف دعوت دیں جس طرح کلمہ ارسلنا سے واضح ہوتا ہے اور نو سو پچاس سال آپ کا زمانہ رسالت تھا اب یہ کہ آپ کی حقیقی عمر کتنی تھی اسے پروردگار جانتا ہے البتہ بعض تفسیروں میں آپ کی حقیقی عمر پچیس سو سال تک بتائی گئی ہے ۔
(۲)حضرت عیسیٰ کے بارے میں پروردگار فرماتا ہے وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم و ان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ الی قولہ و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیز و حکیما، ترجمہ: اور انہوں نے عیسیٰ کو نہ قتل کیا ہے اور نہ اسے دار پر آویزاں کیا ہے بلکہ وہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور جو اس کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس کے حوالے سے مشکوک ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالی فرماتا ہے انہوں نے اسے یقینی طور پر قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے اٹھالیا اور پروردگار عزیز و حکیم ہے۔
اس سے واضح ہوا ہے کہ عیسیٰ ابھی تک زندہ ہیں اور احادیث و روایات کے مطابق امام زمانہ (عج) کے ساتھی ہوں گے اور ان کے زمانہ ظہور میں آسمان سے نازل ہوں گے اور ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔
(۳)حضرت یونس کے بارے میں پروردگار فرماتا ہے فلولا انہ کان من المسجین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون، ترجمہ: اگر یونس (شکم ماہی میں )تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو وہ قیامت تک اس کے شکم میں رہتے۔یعنی قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں قید رہتے۔
یہاں تک کہ موجودات خبیثہ اور شرور میں سے شیطان کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں کہ جس نے اللہ تعالی سے قیامت تک کی مہلت مانگی تھی فانظر الی یوم یبعثون تو اللہ تعالی نے فرمایا: انک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم، یعنی تو ان میں سے ہے کہ جنہیں قیامت تک کی مہلت دی گئی ہے ۔
https://www.mahdawiat.com
متعلقہ تحریریں:
پيغمبر اسلام (ص)کے اہلبيت (ع) قرآن کريم کے ہم پلہ ہيں
قرآن اور حضرت امام زمانہ(عج) علیہ السلام