• صارفین کی تعداد :
  • 2864
  • 5/26/2009
  • تاريخ :

امام خمینی کی نظر میں اتحاد

امام خميني رضوان الله تعالي عليه

حضرت امام خمینی کے افکار و نظریات سے آگاہی حاصل کرنا جو اپنے زمانے میں اسلامی امۃ کے اتحاد کے سب سے بڑے منادی رہے ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے ایران میں اسلامی الہی نظام کی بنیاد رکھی تھی اتحاد کا درد رکھنے والوں کے لۓ راہ گشا اور مشعل راہ ہے۔

انسان فطرتا توحید کی طرف مائل ہوتا ہے اور پوری تاریخ میں دیکھ لیں انسانی عقل نے جہاں خواہشات نفسانی اور اغراض شیطانی کا عمل دخل نہ تھا توحید کی اساس پر ہی عمل کیا ہے اور تنازعات ،پراکندگی اور تفرقہ کو انسانی معاشرے کے مفادات کے خلاف اور گمراہی کا باعث قرار دیا ہے۔

تمام انبیاء الھی علیھم الصلواۃ والسلام کی دینی دعوت کی اساس توحید پر ہی تھی انہوں نے توحید ہی کے سہارے انسان کو شرک و کفر و الحاد سے پاک کرنے کی کوشش کی،توحید کا عقیدہ اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ۔

اسلام کے تمام مشرب خواہ فلسفی عرفانی اخلاقی کلامی یا تربیتی ہوں ان سب کی اساس توحید ہے اور وہ عالم ھستی کی تمام موجودات کو ذات وحدہ لاشریک کی آیات سمجھتے ہیں البتہ اہل تحقیق پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانی معاشرے کے اتحاد کی خواہش عقیدہ توحید کا ایک جلوہ ہے اور اس کے مقابل دھڑے بندی اور کثرت پسندی مادہ پرستی و کفر کی خصوصیات ہیں۔

قرآن مجید میں امت واحدہ کو حقیقی معنی میں سیر الی اللہ کا زینہ قرار دیا گیا ہے ارشاد رب العزت ہے ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون ۔

روز ازل سے حق و باطل کا اختلاف جس شکل میں یا جس سطح پر ہو توحید اور شرک کی بنیادوں پر رہا ہے

حضرت امام خمینی فرماتے ہیں "تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت کلمہ رحمان کی طرف سے "

دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ عالمی ادارے جن کے وجود میں آنے کا مقصد اور ان کا نعرہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا اور اختلافات ختم کرانا ہے اکثر موقعوں پر ناکام رہے ہیں بلکہ خود سامراج کے ہاتھوں استعمال ہو کر کشیدگی اور اختلافات کا سبب بنے ہیں گذشتہ دھائیوں میں سیکڑوں تنظیموں اور حکومتوں نے آپس میں تعاون اور اتحاد قائم کرنے کے معاھدے کۓ ہیں جن کے بارے میں وسیع تشہیرات کی گئیں جن سے دنیا کے باشندوں میں امیدیں پیدا ہوگئیں لیکن ان کا کوئي نتیجہ نہ نکلا اور ناکام رہے۔

ایک زمانے سے اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کی بات کی جا رہی ہے بہت سے اسلامی ملکوں میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے اتحاد کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرلیا اور حکومت چلا رہے ہیں اس موضوع پر سیکڑوں کتابیں اور مضمون بھی لکھے جا چکے ہیں اور خطباء مقررين اور مصنفین و دانشور اتحاد کی اہمیت پر تاکید کرتے رہتے ہیں لیکن اس راہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا میرے خیال میں ان ناکامیوں کی وجہ ان بنیادی امور میں تلاش کرنی چاہیے کہ جن پر توجہ کۓ بغیر ساری کوششیں بدستور ناکام رہیں گي۔

میرے خیال میں ان اداروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عقیدہ اتحاد اور فکری عقیدتی اصولی اور اخلاقی نظاموں کے درمیان موجود اٹوٹ بندھن کو واضح کریں ، کیا ہم توحید کا عقیدہ رکھتے ہوے خداۓ واحد پر ایمان رکھتے ہوے اور خدا کو قادر مطلق مان کر جب عمل کی نوبت آۓ تو اس کے برخلاف عمل کریں اور خلق خدا کے حالات سے بے خبر رہیں ؟

کیا ہم موحد رہتے ہوۓ‌ اصحاب تفرقہ کے گروہ میں شامل ہوسکتے ہیں؟ صدر اسلام میں جب توحید کی دلنشین آواز ان لوگوں کے کانوں میں پہنچتی تھی جو ظلم و شرک و بت پرستی سے تنگ آ چکے تھے تو جاہلی تعصبات فخر اور احساس برتری اور قوم پرستی کے جذبات فوری ختم ہوجاتے ہیں اور اختلافات و تفرقہ کے تمام سبب یہانتک کے سببی اور نسبی تعلقات بھی خداوحدہ لاشریک پر ایمان اور نور عبودیت کے سامنے بے رنگ ہوجاتے تھے ان لوگوں نے ایسا باکمال معاشرہ تشکیل دیا تھا کہ خدا نے انہیں خیر امت کا خطاب دیا اس معاشرہ میں ایسا اتحاد و یکجھتی پائی جاتی تھی کہ سیاہ فام غلام قریش کی بااثر اور سربرآرودہ شخصیتوں کے برابر سمجھا جاتا ہے بلکہ اپنے ایمان کی بنا پر ان سے آگے بھی نکل جاتا ہے ان ہی لوگوں نے ایسی شاندار تھذیب و تمدن کی بنیاد رکھی کہ ایران اور روم کی سلطنتیں بھی اس کے مقابل نہ ٹہر سکیں اور کچھ ہی دنوں میں اس تھذیب و تمدن نے ساری دنیا کے دل جیت لۓ ۔

تحریر : مرحوم حجت الاسلام والمسلمین سید احمد خمینی

https://taghrib.ir


متعلقہ تحریریں:

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای (دامت برکاتہ)

ڈاکٹر محمود احمدی نژاد