• صارفین کی تعداد :
  • 2718
  • 5/12/2009
  • تاريخ :

اسلامي ادب كي ترويج ميں اقبال كا كردار (حصّہ چهارم)

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ

"شعر عجم" كے زير عنوان لكھے گئے يہ اشعار عجميت  كے بارے ميں اقبال كے نقطہ نظر كے مؤيد ہيں. اقبال كے نزديك عجميت وہ منفي زاويہ  حيات ہے جو زندگي كي حرارت اور تازگي كو سلب كر ليتا ہے اور نفي خودي كے ميلانات كو جنم ديتا ہے. زندگي كے تلخ حقايق كو دو بدو ديكھنے كے بجائے ان  سے چشم پوشي اور گريز كے رستے دكھاتا ہے . اقبال كے فرشتہ صید ويزدان  شكار تصورات  شعر و فن ميں ان منفي ميلانات كي سمائي ممكن نہيں . (1) "يك چند بخود پيچ و نيستان ہمہ در گير"  كا نعرہ مستانہ لگانے والا شاعر اور " يا اپنا گريبان چاك، يا دامن يزدان چاك" كے امكانات كي بات كرنے والا بے باك مغني آتش نفس، حيا ت گريز، زمانہ ساز اور نفع عاجل كے آرزومند ہمرہان كوتاہ چشم كيسے سمجھوتا كر سكتا ہے كيا يہ محض اتفاق ہے كہ اقبال كے تين شعري مجموعے زبور عجم، بال جبرئيل اور ضرب كليم وحي و الہام سے معنوي طور پر ہم رشتہ ہيں اور لحن داؤودي سے پيوستہ؟ ہرگز نہيں. خود اقبال كو اپنں كلام كي گران مائيگي اور ابدیت و الوہیت سے  ہم رشتگي كا قوي شعور تھا. ان كا مجموعہ كلام  جاويد نامہ بھی در اصل ابديت كي دستاويز ہے جس كا ذكر انہوں نے اپنے اس اردو شعر ميں كيا ہے۔

 

وہ شعر كہ پيغام حيات ابدي ہے
يا نغمہ جبرئيل ہے يا بانگ سرافيل

 

جس شاعر كي بلند پروازي اور افلاك رسي يہ عالم ہو كہ عالم قدس كے نوري ايك عرصے سے اس كي گھات ميں لگے ہوں اور وہ ان كي گرفت سے باہر، يزدان شكاري كے ليے پر تول رہا ہو، ايسے شاعر كے باليدہ متخيلہ كو آخر كيا نام ديا جائے. ذرا زبور عجم كے حصہ دوم كي ايك غزل كا يہ شعر ديكہيے:

 

بلند بال چنانم كه بر سپهر بريں
هزار بار مرا نوريان كميں كردند

 

يهي بلند نگهي و بلند پروازي اور يهي عمودي و عروجي طرز فكر اسلامي ادب كا مايه خمير هے جس كے اردو اور فارسي ادبيات كے سب سے بڑے علم بردار  اور معيار بند اقبال هيں. عالم خوند ميري نے ايك جگه لكها هے كه كمتر ذهانت كا شاعر اپنے هي وقت كا بدقسمت  قيدي  بن كر ايك طرف  تو ماضي كو حال سے مربوط نه كر پاتا اور دوسري طرف  معاصر حركيت كے آينده كے رخ كا صحيح ادراك نه كر پاتا. اس كام سے اقبال كي ايسي تيز ذهانت اور ارفع متخيله كا حامل شاعر اور مفكر هي عهده بر آ هو سكتا تها.

جس زمانے ميں اقبال رموز بي خودي لكه رهے تهے اور اجتماعي خودي كے خدو خال متعين كر رهے تهے. اسي زمانے ميں انهوں نے our prophets criticism of contemporary Arabian poetry"" كے زير عنوان ايك بهت فكر افروز شذره قلم بند كيا جو جولائي1 197 ء كے نيوايرا (لكهنو) (2) ميں شايع هوا. يه شذره اقبال كے تصور ادب نهايت خوبي سے وضاحت كرتا هے . شاعري كيسي هوني چاهيے اور كيسي نهيں هوني چاهيے، اس عقدے كي توضيح اقبال كے نزديك حضور اكرم –ص- دو موقعوں پر فرمائي هے . ايك موقعے پر امراء القيس كو " اشعر الشعرا" اور " قاعدهم الي النار" كها اور دوسرے  موقع پر عنتره بي شداد عبسي كا ايك شعر سن كر خوشي كا اظهار اور ارشاد فرمايا كه اگر وه زنده هوتا تو ميں اس سے ملنا پسند كرتا

 

1. انهي منفي ميلانات كا مظهر وه عجمي تصوف بهي تها جس كي اقبال نے شدت سے مخالفت كي كيونكه اس كے زير اثر پيدا هونے والا ادب بهي منفي خضوصيات ركهتا هے. اكبر اله آبادي  كے نام 11 جون 1918 ء كے ايك خط ميں لكهتے هيں:

" عجمي تصوف سے لٹرچر ميں دل فريبي اور حسن پيدا هوتا هے مگر ايسا كه طبائع كو پست كردينے والا هے اور اس قوت كا اثر لٹرچر تمام ممالك اسلاميه ميں قابل اصلاح هے. Pessimistic literature كبهي زنده نهيں ره سكتا."

اقبال نامه جلد دوم ص 55-56

2. يهي شذره بعد ازآں اردو ترجمه  هو كر ستاره صبح (1917 ء) ميں شايع هوا. اردو ترجمے كے اسلو سے گمان هوتا هے كه اسے مولانا ظفر علي خان نے ترجمه كيا هوگا.

 

                                                                                                                                                             جاری هے

ڈاکٹر تحسین فراقی

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

تیرے شہر کو تاقیامت نہ بھول پاۓ گی دنیا

شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال