شاہ جہان کی ممتاز بیگم (ارجمند بانو)
ہنوستان میں اسلامی دور حکومت کی خواتین میں ایک معروف نام جو اپنے خاوند کی محبت کی بدولت صدیاں گزرنے کے بعد ، آج بھی برصغیر کے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔ ان کا اصل نام ارجمند بانو تھا ۔ آصف خان کی بیٹی اور نورجہاں کی بھتیجی تھی .
ارجمند بانو بیگم کی تعلیم و تربیت بہت ہی اچھے انداز میں کی گئی تھی ۔ وہ ایک نہایت حسین و جمیل خاتون تھی اور ان کے حسن کا چرچا ان کی شادی سے پہلے ہی شاہی خاندان میں ہو چکا تھا ۔
وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ خوب سیرت بھی تھیں اور انہوں نے اپنی اعلی صورت و سیرت کی وجہ سے شاہجہاں کے دل میں اپنی جگہ پیدا کر لی ۔ 1606ء میں ان کی منگنی شہزادہ خرم (شاہجہان ) سے ہو گئی اور اپریل 1612ء میں اس تاریخی جوڑے کی شادی بہت ہی دھوم دھام سے انجام پائی ۔
میاں بیوی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اور زندگی کے نشیب و فراز شاہجہان اور ممتاز بیگم نے اکھٹے ہی دیکھے اور زندگی میں آنے والی مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرتے رہے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی وفا کیش بیوی نےکبھی خاوند کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔
جب شاہ جہاں نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی اور اس کے نتیجے کے طور پر اسے مدتوں جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑی تو وہ ممتاز محل ہی تھی جو اپنے مخلصانہ مشوروں سے اپنے خاوند کو اس گرداب سے نکلنے میں مدد دیتی تھی ، وہ اسے حوصلہ اور تسلی دیتی اور اس کا باپ آصف خان دربارشاہی میں اس کی کامیابی کی راہیں ہموار کرتا تھا ۔
شاہجہانی دور میں وہ غربا کی ہمدرد ،یتیموں کی سرپرست اور بیواؤں کی نگران تھی ۔ ہر حاجت مند اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے اس سے اپیل کرتا اور کوئی سائل اس کے در سے خالی نہ جاتا ۔ معتوب امراء معافی حاصل کرنے کے لیۓ اس کی وساطت سے عرضداشت بھیجتے ، مجرم گناہوں کی تلافی اس کی سفارش سے پاتے ۔
وہ نہایت خدا ترس خاتون تھی اور انہیں مذھب سے گہرا تعلق تھا ۔
اس کا باپ آصف خان اور نورجہاں شیعہ تھے ۔ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتی تھی اور روزے کا اہتمام بھی کرتی تھی ۔ 7 جون 1631 ء کو ممتاز محل اس دارفانی سے کوچ کر گئی ۔ اس نے اپنے آخری وقت میں شاہجہان کو وصیت کی کہ وہ اس کے بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس کے بعد ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے اپنے خاوند کو دیکھتے ہوۓ اس جہان سے رخصت ہو گئیں ۔ شاہ جہاں نے اپنی اس پیاری بیگم کی یاد میں آگرہ میں نادر عمارت (تاج محل ) کو تعمیر کروایا جو آج بھی اس شاہی جوڑے کی محبت کی یاد تازہ کر رہی ہے ۔
تحریر : سید اسداللہ ارسلان
متعلقہ تحریریں:
بابا فرید گنج شکر (1173-1265)
سلطان باہو (1631-1691)