علامہ سید افتخار حسین نقوی کا القمر آن لائن کے ساتھ انٹرویو (حصہ چهارم)
القمر آ ن لائن: اسلا م میں فلاحی کاموں کی کتنی تاکید کی گئی ہے ؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی النجفی :
اسلام میں فلاحی کاموں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ،اسلام نے یہ تصور دیا کہ جس کسی نے ایک شخص کو بچا لایا اس کے مسائل حل کردیے ، اس کی ضروریات کو پورا کردیا توگویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لایا ، اسلام کہتا ہے کہ اگر انسان بڑا پارسا اور عبادت گذار ہو، ساری رات عبادت میں گزار دے ، دن کو روزے رکھے ،لیکن اس اپنے ہمسایہ کا خیال نہ ہو اس کا ہمسایہ رات کو بھوکا سو جائے ، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، تو ایسے شخص کی عباد ت کو قبول نہ کیا جائے گا اور وہ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا، اور کل خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا۔
اسلام کہتا ہے کہ
ایک پڑھے لکھے شخص پر لازم ہے ک وہ دوسرے کو تعلیم دے ۔
مالدار پر واجب ہے کہ وہ فقراء اور مساکین کی مدد کرے ۔
حاجت مند کی حاجت روائی کرنے کو واجب قرار دیا گیا ہے چاہے وہ حاجت مند غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو۔
اسلام دین محبت ہے ، اسلام دین خدمت ہے اسلام جہاں پر ایک فلاحی مملکت کے قیام کی بات کرتا ہے وہاں فلاحی معاشرہ ، ایک دوسرے کے کام کرنے والے سماج کی تشکیل پر ضرور دیتا ہے ، اسلام کہتا ہے کہ انسان کو انسان کی خدمت کے لئے بیدارکیا جائے خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی اور عبادت نہیں ہے سب سے بڑی عباد ت دوسروں کے کام آنا ہے۔
القمر آن لائن : آج کے دور میں ایک عالم کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں ؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی النجفی :عالم دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملی طور پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنائے وہ جہاں کہیں بھی موجود ہوتو لوگوں سے اس کا رویہ ایسا ہو کہ اس عالم دین کو اپنے لئے سب سے بڑا ہمدرد انسان کے طورپر جانیں ،اپنا راز داں بھی اسے سمجھے اور اپنے سارے مسائل کے حل کے لئے خود کو اس کی پناہ میں لانے میں عار نہ سمجھیں ، لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہنا عالم دین کے فرائض منصبی میں شامل ہے ، اسے کر دار کا دھنی ہونا چاہیے ، معاشرہ میں محبتیں تقسیم کرنے والا ہو، نفرتوں کے خاتمہ کا ذریعہ ہے اور لوگوں کے کام آئے ، فلاحی کاموں میں پیش پیش ہو۔
القمر آن لائن : موجودہ دورمیں ہر شخص اپنے ہی فائدے کی بات سوچتا ہے اس وجہ سے ہم اسلام سے دور ہوگئے ہیں وہ کون سے عوامل ہیں جن کو کرنے سے ہم دنیا اور آخرت میں کا میاب ہوسکتے ہیں؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی النجفی : اسلام کا فلسفہ زندگی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جب ہم اپنے اندر اسلام کے جذبہء خدمت کو اپنا لیں گے تو پھر ہمیں سکون ملے گا اور اسلام سے نفرت ختم ہوگی ، اسلام کو عملی زندگی پر لاگو نہ کرکے ہم اسلام سے پہلے دور ہوئے ہیں اسلام چند مخصوص عبادات سے عبارت نہیں ، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ، اسلام نے لوگوں کے سارے مسائل کا حل دیا ہے اور اسلام ایک فلاحی اور سوشل معاشرہ کی تشکیل چاہتا ہے اسلام خدمت انسانیت کی بنیاد پر قائم دین ہے ہمیں اپنی اپنی سطح پر اس خبر کو عام کرنا ہوگا ، اور خود اس پر عمل کرنا ہوگا ۔
القمر آن لائن : آپ نے اپنے ادارے کو اتنی وسعت دی ہوئی ہے آپ ان کو کیسے چلا تے ہیں کیا آپ کا کوئی ذریعہ آمدن بھی ہے؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی النجفی : میرا بھروسہ اللہ پر ہے میرے پاس کوئی جمع پونجی نہیں ہے اور نہ ہی واضح اور باقاعدہ کو ئی ماہانہ آمدن ہے ، میرے بینک اکاؤنٹ میں ایک ماہ سے زائد رقم جمع نہیں رہتی ، ہر ماہ لاکھوں روپے کی ضروریات ہوتی ہے ، ہم خرچ کرتے خدا کی زمین پر بکھرے ہوئے خدائی خدمت گزار ہمارے لئے بھیجے رہتے ہیں بعض دفعہ پریشانی بھی ہوتی ہے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے ہمارے پاس اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہوتی ہم خدا سے دعا مانگتے ورد و وظیفہ پڑھتے اللہ کے اسماء کا ورد کرتے ہیں، غریبوں سے دعا کرواتے ہیں اپنے کاموں کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں بہرحال تھوڑی پریشانی کے بعد پھر مسئلہ حل ہو جاتا ہے گذشتہ ستائیس سالوں سے اسی طرح سلسلہ چل رہا ہے ہر آنے والا سال پہلے سے بہتر ہوتا ہے۔
القمر آن لائن: کیا آپ نے اپنے ٹرسٹ کے کاموں میں تسلسل برقرار رکھنے کے لئے مستقل آمدن کے بارے میں منصوبہ بندی نہیں کی؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی النجفی: میری کوشش ہے کہ کچھ ایسے ذرائع بن جائیں جن کی آمدن سے ٹرسٹ کے تحت چلنے والے فلاحی اداروں کو مستقبل میں چلایا جا سکے اور یہ کام رکنے نہ پائیں اس کے لئے اہل خیر سے رابطے کر رہے ہیں چند ایک منصوبہ جات بھی زیر غور ہیں لیکن ان کے لئے سرمایہ درکار ہے فی الحال تو میرے پاس جو کچھ آتا ہے وہ مختلف کاموں کے لئے ہوتا ہے جیسے غریبوں میں راشن تقسیم کرتے ہیں ، غریبوں کے بچوں کی شادیوں کے لئے، مریضوں کے علاج کے لئے،پانی کی سکیموں کے لئے،تعلیمی وظائف کے لئے،مساجد کی تعمیر کے لئے، دینی طلباء و طالبات کے جاری اخراجات کے لئے، کتابوں کی اشاعت کے لئے، میڈکل فری کیمپوں کے لئے، یتیموں کی سرپرستی کے لئے وغیرہ وغیرہ۔
آپ دیکھیں مختلف عناوین کے تحت پیسے آتے ہیں وہ اسی عنوان پر خرچ کر دیتا ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی مجھ سے اس عنوان سے مدد کرے کہ یہ رقم آپ کے لئے ہے کہ آپ اسے کسی درآمدی منصوبہ پر لگائیں اور پھر اس کی آمدنی سے فلاحی کاموں پر خرچ کریں۔
ناامید نہیں ہوں خدا ضرور اس کا انتظام کرے گا، میرا بڑا سہارا طالبات کی دعائیں، غریبوں کی بلائیں ہیں مساکین ویتامیٰ کی ہمدردیاں ہیں جو میرے سارے کاموں کو چلا رہی ہیں۔
بشکریہ القمر آن لائن ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
علامہ سید افتخار حسین نقوی کی شخصیت اور خدمات