جہاں میں حالی کسی پہ اپنے سوا بھروسہ
جہاں میں حالی کسی پہ اپنے سوا بھروسہ نہ کیجیے گا |
یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجیے گا |
ہو لاکھ غیروں کا غیر کوئی، نہ جاننا اس کو غیر ہر گز |
جو اپنا سایہ بھی ہو تو اس کا تصور اپنا نہ کیجیے گا |
سنا ہے صوفی کا قول ہے یہ کہ ہے طریقت میں کفر دعوٰی |
یہ کہہ دو دعوٰی بہت بڑا ہے پھر ایسا دعوٰی نہ کیجیے گا |
کہے اگر کوئی تم کو واعظ کہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہو |
زمانہ کی خو ہے نکتہ چینی، کچھ اسکی پرواہ نہ کیجیے گا |
لگائو تم میں نہ لاگ زاہد، نہ درد الفت کی آگ زاہد |
پھر اور کیا کیجیے آخر جو ترک دنیا نہ کیجیے گا |
شاعر کا نام : الطاف حسین حالی
ترتیب و پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان