سورہ یوسف ۔ع ۔ (33) ویں آیت کی تفسیر
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
اور اب سورۂ یوسف کی 33 ویں آیت خدا فرماتا ہے :
قال ربّ السّجن احبّ الیّ ممّا یدعوننی الیہ و الّا تصرف عنّی کیدہنّ اصب الیہنّ و اکن مّن الجاہلین
یعنی [ یوسف (ع) نے ] کہا : پروردگارا ! جیل میں ڈال دیاجانا مجھے اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی وہ مجھے دعوت دے رہی ہے اور اگر ان کا مکر وحیلہ مجھ سے دور نہ کیا تو میں ( بھی ) ان کی طرف میلان پیدا کرلوں گا اور میرا شمار جاہلوں میں کیا جائےگا ۔
عزیزان محترم ! اہل دولت و ثروت اور ارباب حکومت و سلطنت کا یہی دستور رہا ہے کہ وہ اپنی خفت و بدنامی سے بچنے اور جرم و گناہ پر پردہ ڈالنے کے لئے بے گناہوں کو سزا دیتے ہیں اگرچہ حضرت یوسف (ع) کی بے گناہی اور زلیخا کی عاشقانہ ہوس عزیز مصر پر آشکار ہوچکی تھی اور زلیخا نے بھی کم از کم مصر کی عورتوں کے سامنے بے حیائی کے ساتھ اپنے گناہ کو تسلیم کرلیا تھا پھر بھی زلیخا نے اپنی بات نہ ماننے کے جرم میں یوسف (ع) کو جیل میں ڈالنے پر اصرار کیا اور عزیز مصر نے یوسف ( ع) کو قید میں ڈال دیا جو بتاتا ہے کہ مرد کی غیرت عورت کی ہوس کے سامنے کس قدر بے بس ہوجاتی ہے لیکن اس صورت حال کے مقابلے میں خدا کے پاکدامن بندے جیل میں ڈال دیا جانا پسند کرلیتے ہیں اور کسی کے دباؤ میں آکر ناجائز خواہشوں کے سامنے سپر انداختہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے پروردگار سے مردانہ ناموس کی حفاظت و استقامت کی دعا کرتے ہیں اور خدا ان کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ نفسانی شہوتوں پر خدا کے حکم کو مقدم سمجھتے ہیں کسی کو راضی رکھنے کے لئے خدا کے فرمان کو نظر انداز نہیں کرتے ۔
اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :
بعض وقت طعن و تشنیع کے ساتھ برا بھلا کہنے والوں کی باتیں نیک نیتی ، اخلاص اور خیر خواہی کے لئے نہیں ہوتیں کینہ و حسد کے اظہار کے لئے ملامت کا لہجہ اپنایا جاتا ہے ظاہر ہے اس طرح کی ملامت فائدے کے بجائے معاشرے کے لئے اور زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔
چنانچہ کبھی کبھی لوگ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں مگر خود اپنے لئے وہی کام جائز بنالیتے ہیں ۔مصر کی عورتوں نے زلیخا کی سرزنش کی لیکن یوسف (ع) کی ایک جھلک نے ان کو مدہوش کردیا اور خود اپنے ہاتھ کاٹ لئے ۔
عفت و پاک دامنی وہ عظیم سرمایہ ہے جس کی حفاظت و پاسبانی تمام انسانی معاشروں میں اچھی نظر سے دیکھی جاتی ہے چاہے کوئی خود اس پر عمل کرے یا نہ کرے ، بے عفتی کسی کو پسند نہیں آتی ۔
دولت و اقتدار پر بے غیرتوں کا تسلط ہوجائے تو اہل کردار قید خانوں میں اور بد کار آزاد چھوڑدئے جاتے ہیں تاکہ دولتمندوں کا حکمراں طبقہ اپنی ناجائز خواہشوں کی تکمیل کرسکے ۔
گناہ کے ماحول سے دور رہنا ، بلکہ گندے ماحول میں اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرنا پختہ ایمان اور الہی مدد کا خواہاں ہوتا ہے اسی لئے قرآن کی نگاہ میں اس کی بڑی قدر وقیمت ہے ۔
جہالت صرف پڑھا لکھا نہ ہونا ہی نہیں ہے خواہشات کی پیروی اور پدر مادر آزاد ہوجانا بھی جہالت ہے اسی لئے اہل نظر کا خیال ہے کہ اسلام سے قبل کے جاہلی دور سے عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت ، مراتب کے لحاظ سے زیادہ بدتر ہے ۔
اردو ریڈیو تہران