• صارفین کی تعداد :
  • 3873
  • 3/4/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع۔ (26۔27 ) ویں  آیات کی تفسیر

بسم الله الرحمن ارحیم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

سورۂ یوسف ( ع) کی آیات چھبیس اور ستائیس میں  ارشاد ہوتا ہے :

قال ہی راودتنی عن نّفسی و شہد شاہدمّن اہلہا ان کان قمیصہ قدّمن قبل فصدقت و ہو من الکاذبین و ان کان قمیصہ قدّ من دبر فکذبت و ہوا من الصّادقین "


یعنی ( یوسف نے ) کہا یہ عورت ہی مجھ کو اپنی طرف رجھا رہی تھی اور عورت کے گھر والوں میں سے ہی ایک انصاف ورنے گواہی دی کہ اگر یوسف (ع) کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچی ہے اور یوسف (ع) جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور اگر قمیص پیچھے سے پھاڑی گئی ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف سچوں میں سے ہیں ۔

عزیزان محترم ! جیسا کہ ان آیات سے واضح ہے عزیز مصر کی بیوی کے الزام اور حضرت یوسف  (ع) پر اپنے آقا کے ساتھ خیانت کے اتہام نے حضرت یوسف (ع)  کے لئے سکوت کی کوئی راہ باقی نہیں چھوڑی تھی لہذا اپنا دفاع کرتے ہوئے جناب یوسف  (ع) نے کہا خود اس عورت نے عشق کا ڈھونگ رچا کر مجھ کو اپنی ہوس میں گرفتار کرنا چاہا تھا اور میں نے بھاگ کر خود کو اس عورت سے نجات دی ہے ۔

عزیز مصر کے لئے اس منزل میں کوئی بھی فیصلہ سخت تھا ایک طرف بیوی تھی جس کے لئے یہ باور کرنا کہ وہ ایک غلام کے اوپر فریفتہ ہوجائے گي مشکل تھا دوسری طرف یوسف (ع)  کا حسن کردار اس بات پر یقین کرنے میں مانع تھا کہ وہ ایک غلام ہو کر اپنے مالک کی ناموس پر بری نیت ڈالیں گے اس حیرت و استعجاب کی منزل میں وہاں موجود خود زلیخا کے خاندان کے ایک شخص نے جس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ ایک کم سن بچہ تھا یا یہ کہ کوئی عاقل و فرزانہ شخص تھا ، یہ فیصلہ کیا کہ

اگر یوسف (ع) نے جسارت کی ہے تو زلیخا کے ساتھ ہاتھا پائي میں ان کی قمیص کا سامنے سے دامن پھٹا ہوگا اس صورت میں عورت سچی اور یوسف (ع) جھوٹے ہیں اور اگر یوسف (ع) کا دامن پیچھے سے پھٹا ہے تو ثابت ہوجائے گا کہ زیادتی عورت کی طرف سے ہے اور یوسف (ع) سچے ہیں ۔عزیز مصر نے دیکھا تو یوسف (ع) کا دامن پیچھے سے پٹھا تھا جس سے معلوم ہوگیا کہ یوسف بھاگ رہے تھے اور زلیخا ان کا پیچھا کررہی تھی ۔

بہرحال ،جناب یوسف (ع) اور زلیخا کے اس واقعے سے جناب مریم (ع) اور حضرت عیسی (ع) کی پیدائش کے واقعے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی پاکیزہ ترین افراد پر بھی گندگی کی تہمت لگا دی جاتی ہے مریم (ع) خدا کی منتخب ، پاکترین و باحیاترین خاتون تھیں مگر ان پر نگاہیں اٹھیں انہوں نے موت کی آرزو کی مگر خدا نے بچے کو گویائي دے کر ان کی عصمت کی گواہی دلوا دی اور ان کا دامن کردار پاک و صاف کردیا حضرت یوسف (ع) کے سلسلے میں بھی الہی انتظام کے تحت گہوارے کے ایک بچے نے یا ایک عاقل و فرزانہ شخص نے جو زلیخا کے ہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا یوسف  (ع) کے حق میں گواہی دے کر حضرت یوسف (ع)  پر لگایا گیا الزام ہمیشہ کے لئے دھل دیا اور ان کی پاکیزگی ثابت کردی ۔

یہاں ایک دلچسپ بات اور یہ ہے کہ جناب یوسف (ع)  کی داستان میں ان کے پیراہن نے تین مقامات پر تین اہم کردار ادا کئے ہیں ۔کنو یں میں بھائیوں نے گرایا تو ان کا پیراہن خون آلود کرکے باپ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ یوسف (ع) کو بھیڑیا کھا گیا ہے لیکن قمیص کے کہیں سے پھٹے نہ ہونے کے سبب یوسف (ع) کے بھائیوں کا جھوٹ ہویدا تھا ۔اسی طرح اس مقام پر زلیخا کے لگائے گئے اتہام سے نجات میں یوسف کا دامن پیچھے سے پھٹا ہونا ،کام آیا اور یوسف (ع) کی پاکیزگی ثابت ہوگئی اور ایک بار پھر داستان کے آخری حصے میں آپ دیکھیں گے جب یوسف (ع) کا پیراہن باپ کی آنکھوں سے مس کیا گیا تو یعقوب (ع) کی کھوئی ہوئی بصارت واپس آ گئی ۔

اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

صرف زبانی طور پر خدا سے پناہ طلب کرنا کافی نہیں ہے عملی طور پر بھی گناہ سے فرار لازم ہے حتی جہاں کوئی نہ ہو ہر طرف سے دروازے بند ہوں اور گناہ کی دعوت دی جائے اگر انسان خدا سے پناہ کا طالب ہو اور خدا پر ایمان و یقین پختہ ہوتو اس عالم میں بھی اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرسکتا ہے ۔

کبھی کبھی عمل ایک لیکن مقاصد مختلف ہوتے ہیں یوسف (ع)  اور زلیخا دونوں نے دروازے کی طرف دوڑ لگائی مگر ایک نے گناہ کی طرف دوڑ لگائی تھی اور ایک نے گناہ سے فرار کی دوڑ لگائی تھی ۔اور خدا نے اپنے مخلص بندے کی حفاظت کی ۔

اہل انصاف کو یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی کبھی خود شاکی مجرم ہوتا ہے لہذا فیصلے میں عجلت سے کام لے کر کبھی کسی بے گناہ کا حق ضایع نہیں کرنا چاہئے ۔

تہمت سے دفاع ہر شخص کا حق ہے ، بے جا تہمت کے وقت سکوت اصل مجرم کے ساتھ تعاون کا سبب بن سکتا ہے ، سزا سے نجات کا امکان نہ ہوتو بھی اپنا دفاع کرنا اور مجرم کو سزا دلانا ہر مومن کا فریضہ ہے ۔چنانچہ

خدا کی مدد شامل حال ہو تو خود مجرم کے خاندان والے بے قصور کی نجات کا وسیلہ بن جاتے ہیں ۔

                      اردو ریڈیو تہران