مسلم مملکت کا فکری رہبراورنظریہ داں
فکرِ اقبال کے حوالے سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا شمار اسلامی دنیا کی اہم قد آور شخصیتوں میں ہوتا ہے ۔ اُنیسویں صدی میں دنیائے اسلام میں آنے والے سیاسی زوال کی کیفیت اور معاشرتی زبوں حالی، جس کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغربی سامراج نے اسلامی دنیا اور خصوصاً بّرصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے باہمی نفاق کا قرار واقعی فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیائے اسلام میں اپنی حکمرانی کے گہرے پنجے گاڑھ دیئے تھے ۔ اسلامی دنیا کے مقبوضات پر مغربی دنیا کے قبضے کو مستحکم بنانے اورسامراجی نصب العین کی تکمیل کرتے ہوئے برطانوی کمپنی بہادر کی حکومت نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کو منطقی انجام تک پہنچانے کےلئے ماضی میں افغانستان اور شمال مغرب سے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی حمایت میں آنے والے اسلامی اثرات کو روکنے کےلئے ڈیورنڈ لائین پر برطانوی سیکیورٹی چوکیوں کا نظام قائم کیا جس کی باز گشت آج کی آزاد دنیا میں دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ کے حوالے سے پاکستان افغانستان بارڈر پر بھی سنائی دے رہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ اقبال کی پیغامی شاعری اور فکری صلاحیتیں اوائلِ عمر میں ہی اُبھر کر سامنے آنے لگی تھیں لیکن اقبال میں چھپے ہوئے فلسفیانہ خیالات کو ایک انگریز پروفیسر سر تھامس آرنلڈ نے اُس وقت پہچانا جب اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں آئے۔ پروفیسر آرنلڈ نے نوجوان اقبال میں موجود اِن فکری تخلیقات کو مہمیز دیتے ہوئے اُنہیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی اعلیٰ ڈگری کی تعلیم کےلئے باہر جانے کا مشورہ دیا ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے بلآخر ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری بخوبی حاصل کی لیکن یورپی معاشرتی ماحول میں بیرونی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود فکر اقبال پر پیغمبر اسلام کی زندگی اور قرانی تعلیمات کا اثر غالب رہا ۔
حکیم الااُمت ڈاکٹر علامہ اقبال نے اُمتِ اسلامیہ کو زوال کی اِس کیفیت سے نکالنے کے لئے 1911-1913 میں اپنی شہرہ آفاق نظموں ”شکوہ “اور ”جواب شکوہ“ کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی کھوئی ہوئی عظمت کا احساس دلانے کےلئے اُمتِ اسلامیہ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور مسلمانانِ ہند کے دلوں کو عظمتِ رفتہ کے عظیم مناظر دکھا کر گرمایا ۔ اُنہوں نے ”شکوہ “میں خدائے ذوالجلال سے گفتگو کے حوالے سے مسلمانوں کی محرومیوں ، مایوسیوں اور شکست و ریخت کی کیفیت کو موضوع بحث بنایا جبکہ ”جوابِ شکوہ“ میں رب العالمین کے حوالے سے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے غفلت ، فرقہ پسندی ، باہمی انتشار اور عملی زندگی میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں سے گلو خلاصی حاصل کرنے کےلئے بیداری ، فکر و نظر اور انسانی جدوجہد کے جذبے کو تیز تر کرنے کا احساس دلایا ۔ علامہ اقبال کے اِس پیغامی کلام نے مسلمانانِ ہند کو خواب غفلت سے جگانے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کا اعتراف ہندوﺅں کے مجموئی مفاد کی سربلندی کےلئے متحدہ ہندوستان کی آزادی کےلئے کام کرنے والے ممتاز ہندو رہنما جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ” تلاشِ ہند“ میں اِن الفاظ میں کیا ہے ” مسلمان نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سر محمد اقبال کا اہم حصہ ہے ۔ ابتدا میں اقبال نے اُردو میں پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ جنگِ بلقان کے دوران اُنہوں نے اسلامی موضوع اختیار کئے جس نے مسلمانوں کے جذبات کو متاثر کیا اور اُنہیں شدید تر کر دیا ۔ وہ ایک شاعر ، عالم اور فلسفی تھے اور نسل کے اعتبار سے کشمیری برہمن تھے ۔
اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کےلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُنکی ہردلعزیزی اُن کے کمالِ شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اِس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے “ ۔ جواہر لال نہرو کی رائے اپنی جگہ اہم ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کے طول و ارض میں بسنے والے مسلمانوں کی فکرِ ی جہت کو بیدار کرنے اور اُنہیں ایک لڑی میں پرونے والے علامہ اقبال ہی تھے جس کا اظہار اُن کے کلام میں بھی جا بجا ملتا ہے ۔
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں |
کچھ بھی پیغامِ محمد(ص) کا تمہیں پاس نہیں |
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں |
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں |
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم |
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم ! |
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں |
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں |
آج بھی ہو جو براھیم(ع) کا ایماں پیدا |
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا |
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے |
دہر میں اسمِ محمد(ص) سے اُجالا کر دے |
کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں |
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں |
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے |
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے |
بلاشبہ علامہ اقبال کے اشعار نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اسلامی نظریہ کی اساس میں ڈھالنے میں ایک ناقابل شکست کردار ادا کیا ۔ تحریک پاکستان میں اُن کے اِس فکری کردار کو اِس اَمر سے اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ ویسے تو مسلمانوں نے مغلیہ سلطنت کی شکل میں انتظامی طور پر تمام ہندوستان پر حکومت کی لیکن آبادی کے حوالے سے ہندوستان میں مقامی ہندو آبادی کو متشددو دیگر پُر اثر ذرائع سے دبانے اور مسلمانوں کو ہندوستان کی اکثریتی آبادی میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کبھی نہیں کی ۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں شہروں اور دیہاتوں میں برابری کی بنیاد پر ہندو اور مسلمان آبادیاں معاشرتی توازن کےساتھ co-exist کرتی رہیں لیکن مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمان آبادیوں کے مسائل میں اُس وقت اضافہ ہوا جب کمپنی بہادر اور برطانوی حکومتِ ہند نے جو بتدریج مسلمان حکمرانوں اور مغلیہ سلطنت کی جگہ اقتدار میں آئی تھی ، نے مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ کرنے اور ہندوﺅں کےساتھ اقتدار میں شراکت کو اپنا نصب العین بنایا ۔ پروفیسر محمد منور اپنی کتاب تحریکِ پاکستان کے تاریخی خدوخال میں لکھتے ہیں ۔ ” بّر صغیرکے مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقہ اور انگریزوں نے کس طرح باہم گٹھ جوڑ کر لیا یہ ایک طویل اور دردناک کہانی ہے ۔ اِن دونوں قوموں نے مسلمانوں کے حقوق پامال کئے اور اُنہیں یکسر برباد کرنے کےلئے سارا زور لگا ڈالا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ ایسی گھناﺅنی کوششوں سے پُر ہے ۔ بنگال میں جہاں انگریزی حکومت سب سے پہلے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ، وہاں جملہ انتظامی مشینری ہندوﺅں کے حوالے کر دی گئی ۔ مسلمان چپڑاسی سے بڑھ کر کسی عہدے کی اُمید نہیں رکھ سکتے تھے ۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی تائید تاریخی دستاویزات کرتی ہیں“۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو اکثریتی صوبوں میں انگریزحمایت کے پس منظر میں اکثریت کی جانب سے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ، شدھی اور سنگھٹن کی ہندو شدت پسند تحریکوں کی آڑ میں مسلمانوں کو زبردستی یامالی منفعت کی ترغیبوں سے ہندو بنانے اور فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتلِ عام اور اُنکی پراپرٹی کو تہ و بالا کرنے کی روش کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے قیام کےلئے ، یعنی علامہ اقبال اور قائداعظم کی تحریکِ پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے مسلم مذہبی جماعتوں نے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متحدہ ہندوستان کے نام پر کانگریس کا ساتھ دیا لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبردست اکثریت نے اِن مذہبی جماعتوں کا ساتھ دینے کے بجائے علامہ اقبال اور قائداعظم کی فکر و نظر کاساتھ دیتے ہوئے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑکر رکھ دیا ۔
فی الحقیقت مسلمان کبھی بھی ہندوستان کی کل آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں رہے اور برطانوی حکومت ہند کے جمہوری ایجنڈے کے حوالے سے مسلمانوں کےلئے علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریہ پاکستان کی بنیاد پر حصول پاکستان ایک مشکل ترین جد وجہد تھی۔ برطانوی حکومت ہند سے علیحدگی کو بغاوت سے تعبیر کرنے اور سخت ترین قوانین کی موجودگی کے باوجود علامہ اقبال نے دسمبر 1930 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہءصدارت پیش کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند کےلئے ایک علیحدہ وطن کے مطالبے کی بنیاد رکھ دی ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حوالے سے علامہ اقبال کا ویژن اُن کے اِس بنیادی موقف کے گرد ہی گھومتا تھا کہ اسلامی زندگی، ثقافتی قوت کے طور پر ایک مخصوص ریاست جو اُن کے اپنے قبضہءقدرت میں ہو، میں ہی جِلا پا سکتی ہے ۔ اُنہوں نے اپنے خطبہ صدارت میں واضح طور پر اِس نظریہ کا تعین اِن الفاظ میں کیا " میں پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں جسے برطانوی شہنشاہی حدود کے اندر یا باہر حکومتِ خود اختیاری میسر ہو ۔ شمال مغربی ہندوستان میں ایک مربوط مسلم ریاست کی تشکیل میرے نزدیک کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر دکھائی دیتی ہے“۔
1938 میں علامہ اقبال کی وفات کے بعد بالآخر قائداعظم بھی طویل سوچ و بچار کے بعد اِسی نتیجے پر پہنچے اور اُنہیں یہ مشکل فیصلہ 1940 میں کرنا پڑا ۔1943 میں قائداعظم کے نام لکھے جانے والے علامہ اقبال کے خطوط کا دیباچہ میں قائداعظم نے اِس اَمر کا اعتراف کیا ہے کہ علامہ اقبال 1938 میں اپنی وفات سے قبل اُن سے ایک آزاد مسلم ریاست کے مطالبے کے اصول کو منوا چکے تھے ۔ وہ اِس دیباچہ میں لکھتے ہیں " اقبال کی رائے بنیادی طور پر میری رائے کے مطابق ہی تھی اور آخر کار یہ رائے مجھے اُن نتائج تک پہنچا کر رہیں جو مجھے ہندوستان کے دستوری مسائل پر گہرے غور و فکر کے بعد حاصل ہوئیں اور یہی فکری نتائج مسلمانانِ ہند کے متحدہ عزم کی شکل میں ظاہر ہوئے اور قراردادِ لاہور میں شامل ہوئے " ۔
حقیقت یہی ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کےلئے ہندو اکثریتی صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں کا تحفظ ہر مرحلے پر پیشِ نظر رہا۔ علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک مضبوط مسلم ریاست کا وجود ، ہندوستانی مسلمانوں کےلئے ہمیشہ ہی اعتماد اور تحفظ کا باعث رہے گا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ایک مخصوص سیاسی محفل میں یہ کہتے ہوئے اِس اَمر کی تائید کی کہ اُنہوں نے پوری قوت سے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن پاکستان اب ایک حقیقت بن گیا ہے اور اب بھارتی مسلمانوں کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ پاکستان قائم و دائم رہے ۔ بہرحال قائداعظم ہندو اکثریتی صوبوں میں تحریکِ پاکستان کےلئے مسلمانوں کی زبردست حمایت کے باعث اُنکے تحفظ کےلئے ہمیشہ فکرمند رہے اور یہی وجہ ہے کہ جب 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور کے ذریعے برطانوی حکومت ہند سے ایک علیحدہ مسلم ریاست کو مطالبہ کیا گیا تو اِسی قرارداد میں اِس اَمر کا مطالبہ بھی خاص طور پر کیا گیا کہ "
That adequate, effective and mandatory safeguards should be specifically provided in the constitution for minorities in these units and in the region for the protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights and interest in consultation with them and in other parts of India where the Musalmans are in minority adequate, effective and mandatory safeguards shall be specifically provided for them for the protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights and interest in consultation with them."
۔ اِسی طرح جب 9 مارچ 1946 کو دہلی میں مسلم لیگ کے ممبرانِ پارلیمنٹ کے کنونشن میں قراردادِ لاہور کے متن میں تبدیلی کرتے ہوئے خود مختار ریاستوں کے بجائے ایک مسلم مملکت کی بات کی گئی تویہ بھی کہا گیا کہ
" That the minorities in Pakistan and Hindustan be provided with safeguards on the lines of the All India Muslim League resolution passed on 23rd of March 1940, at Lahore."
۔یہاں یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ11 اگست 1947 کی قائداعظم کی تقریر سے سیکولرازم کے حوالے سے غلط مفہوم نکالنے کی کوششوں سے پرہیز کیا جانا چاہئیے کیونکہ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے حوالے سے یہ ایک اصولی فیصلہ تھا جس کی وضاحت قرادادِ لاہور اور قراردادِ دہلی میں کر دی گئی تھی، اِسی حوالے سے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات روکنے کےلئے وزیراعظم لیاقت علی خان اپریل 1950 میں نئی دہلی گئے جہاں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے لیاقت نہرو معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ بہرحال 14 اگست 1947 کو جب پاکستان وجود میں آیا تو علامہ اقبال اِس دنیا میں نہیں تھے لیکن حصولِ پاکستان کےلئے اُن کی آئینہ ضمیری اب تاریخ کا حصہ ہے۔
تحریر : رانا عبدالباقی