• صارفین کی تعداد :
  • 3284
  • 2/14/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع۔ ( 22۔21 ) آیات کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

" وقال الّذی اشترایہ من مّصر لامرئتہ اکرمی مثواہ عسی ان یّنفعنا او نتّخذہ ولدا" و کذلک مکّنّا لیوسف فی الارض و لنعلّمہ من تاویل الاحادیث و اللہ غالب علی امرہ و لکنّ اکثر النّاس لایعلمون ۔"

اہل مصر سے جس شخص نے یوسف کو خریدا تھا اپنی بیوی سے کہا : اس کو عزت و احترام کے ساتھ رکھنا ممکن ہے کہ ( مستقبل میں ) یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں ، اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین پر متمکن کر دیا اور انہیں خوابوں کی تعبیر سے آگاہ کردیا اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے لیکن زیادہ تر لوگ علم نہیں رکھتے ہیں ۔

عزیزان محترم ! جناب یوسف (ع) کو کنویں کے اندھیروں سے نکال کر مصر لانے والے کارواں نے جناب یوسف (ع) کو معمولی قیمت پر ہی بازار میں بیچ دیا تو مصر کے دربار سے وابستہ جس گوہرشناس نے جناب یوسف (ع) کو خریدا تھا اپنی بیوی سے کہا اس غلام کے سستے داموں پر ہی ہاتھ آ جانے کے سبب اس کی ناقدری نہ کرنا عزت و احترام سے رکھنا کیونکہ میں شکل و صورت سے ہی سمجھ رہا ہوں کہ یہ غلام یا تو ہمارے لئے بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا یا پھر ہم اس کو اپنا بیٹا بنا لیں گے ۔

روایات کی روشنی میں اس وقت ریان ابن ولید مصر پر حکمراں تھا اور اس کے وزیر خزانہ عزیز مصر نے جناب یوسف (ع) کو خرید کر اپنی بیوی زلیخا کے حوالے کرتے ہوئے یوسف (ع) کو عزت و احترام کے ساتھ گھر میں رکھنے کی تاکید کی تھی اور جناب یوسف (ع) کے حسن و جمال کے تحت بیوی کو متوجہ کیا تھا کہ ہوسکتا ہے ہم اس کو اپنا بیٹا بنا لیں تاکہ بیوی کے دل میں " حسن یوسف " مادرانہ احساسات کا حامل ہو جائے اور وہ کسی اور جذبے سے یوسف (ع) کونہ دیکھے چنانچہ خداوند عالم نے اس کے بعد نبی اکرم (ص) اور ان کی امت کو اپنے اقتدار اعلی کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ہماری قوت و شوکت کو دیکھو کہ ہم نے کس طرح یوسف (ع) کو بھائیوں کے ارادۂ قتل سے بچایا پھر کنویں میں حفاظت کی ، بازار مصر تک پہنچایا اور پھر عزیز مصر کے گھر میں عزت و وقار کے ساتھ متمکن کردیا کیونکہ مصر میں سکونت اور عزيز مصر کے گھر میں قیام مصر کی حکمرانی کے لئے مقدمہ بنے گا اور وہ خواب جو یوسف (ع) نے دیکھا تھا اس کی تعبیر دنیا کے سامنے آ جائے گی ۔

اور اب  سورۂ یوسف (ع)  کی بائیسویں آیت ، خدا فرماتا ہے :

" ولمّا بلغ اشدّہ اتیناہ حکما وّ علما و کذالک نجزی المحسنین ۔"

اور جب یوسف (ع) سن بلوغ کو پہنچ گئے تو ہم نے ان کو حکم ( یعنی نبوت) اور علم و دانش عطا کیا ، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں ۔

خداوند عالم نے جناب یوسف (ع) کی داستان میں ان کے معنوی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے یوسف (ع) عزيز مصر کے گھر میں پلے بڑھے اور سن تمیز کو پہنچ گئے اور چونکہ وہ مرد صالح اور مرد امین تھے ہم نے خاص لطف و بخشش کے تحت ان کو حکم اور فیصلے کی قوت اپنی نبوت کے تحت عطا کردی اور علم غیب سے آشنا کردیا کہ علم و دانش سے کام لے کر خوابوں کی تعبیر بیان کریں اور پھر اعلان کردیا کہ یہ ایک الہی سنت و روش ہے کہ وہ نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتا ہے ۔

جی ہاں ! اللہ اپنے نبیوں کو معاشرے کے ممتاز افراد کے درمیان سے منتخب کرتا اور طرح طرح کے مصائب اور مشکلات سے گزارتا ہے تا کہ ان کے اندر اللہ کی عظیم ذمہ داریاں قبول کرنے کی لیاقت کے ساتھ عوام کے درمیان بھی ان کی قوت و صلاحیت نمایاں اور آشکار ہو جائے اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

کبھی کبھی آپ کے قریبی افراد آپ کو مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا کردیتے ہیں لیکن الہی لطف کے تحت غیر لوگ نجات کا باعث بن جاتے ہیں چاہے ان کا مقصد نجات عطا کرنا نہ ہو ۔

بعض افراد انسانوں کو بھی دنیا کی دوسری خریدی اور بیچی جانے والی اشیاء کی طرح خریدتے اور بیچ دیتے ہیں اور اس کے معنوی اور انسانی پہلوؤں کی طرف سے غافل ہیں ۔

دلوں کو متاثر کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے چنانچہ یوسف (ع) کی محبت نے عزيز مصر کے دل میں اس طرح جگہ بنا لی کہ اول روز ہی وہ ان کو اپنا بیٹا بنانے کو تیار ہوگئے ۔

نیکوکاروں کی سختیاں اور مشکلات ہمیشہ اچھے انجام کا باعث بنتی ہیں یہ ایک خدا کی سنت ہے کہ وہ اچھے لوگوں کو امتحان سے گزارتا اور اچھی جزاء دیتا ہے ۔

اللہ کے فیصلے ، ہمیشہ پورے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ارادوں پر غالب ہے کوئی اس کے ارادوں کو توڑنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی قوت نہیں رکھتا ۔ جیسا کہ اللہ نے حضرت یوسف (ع) کو خواب کے ذریعے جس فیصلے کی خبر دی تھی اس کے تحت ان کو کنویں سے نکال کر مصر کی حکومت پر فائز کردیا ۔

خدا اپنے مخصوص بندوں کو بعض علوم ، علم غیب یا علم وہبی کی صورت میں عطا کرتا ہے جواکتساب کے ذریعے حاصل نہیں ہوتے ۔

الہی نبوت و رسالت کے لئے قبولیت کی صلاحیت اور ظرف ضروری ہے اور کہاں یہ ظرف پایا جاتا ہے صرف خدا کے علم میں ہے لہذا وہی نبوت و وصایت عطا کرتا ہے ۔

 

                        اردو ریڈیو تہران