• صارفین کی تعداد :
  • 1952
  • 2/7/2009
  • تاريخ :

کرفيو آرڈر (تیسرا حصہ)

lahor in old time

سلیم لکڑی کی ایک معمولی سی بينچ پر بیٹھاتھا ۔لالٹین کی دُھندلی روشنی میں اُس کی متفکّر نگاہیں کسی چیز پر جمی ہوئی تھیں۔ پانی کے گھڑے پریا طاق میں لیمونیڈ کی بوتلوں پر۔۔۔۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ ظاہر تھا کہ اُس کو پٹھان سے ہمدردی پیدا ہوگئی تھی ۔۔۔۔ وہ آج اتفاق سےخود بھی شام کا کھانا نہیں کھا سکا تھا۔ لیکن بیوی سے ملاقات کے شوق میں اُسے کھانے کی چنداں پرواہ نہ تھی ۔تاہم  اِس میں شک  نہیں کہ اب وہ بھوک کی تکلیف محسوس کر رہا تھا ۔ اور اِس ذاتی تکلیف کے احساس نے اُسے پٹھان کی گرسنگی کی تکلیف سے اچھی طرح باخبر کر دیا تھا۔ اُس نے دائیں بائیں نظر ڈالی۔ گویا امجد کی بات بھول کر وہ کسی کھانے کی چیز کی تلاش میں ہے۔ ایک کونے میں دو گھڑے رکھے تھے۔ ایک پر ایک تام لوٹ پڑا تھا۔ ایک ٹوٹی پھوٹی الماری پرچندبے دُھلی پلیٹیں نظر آئیں۔ کمرہ بحیثیتِ مجموعی غلیظ حالت میں تھا۔ مگر اپنے نفیس مذاق کے باوجود اُسے وہاں بیٹھنا ناگوار نہ تھا کیونکہ وہ زندگی کا ہر ایک رنگ یا زندگی کو ہر ایک رنگ میں دیکھنے کا شائق تھا۔ علاوہ بریں وہ جانتا تھا کہ دوسرے کمرے میں(جسےصحیح معنی میں ہوٹل کہناچاہیئے) اِس وقت بیٹھنے کے یہ معنی تھے کہ بجلی کی روشنی کی جائے اور یہ امر شاید ہوٹل کے مالک کو گوارا نہ تھا۔ پولیس کے ڈر سےاُس کی روح فنا ہوتی تھی۔ اِس وقت اُسے اپنا کمرہ یاد آرہا تھا۔ وہ کمرہ جو کچھ روز ہوئےجہیز کےسامان سے آراستہ کیا گیا تھا۔۔۔۔ وہ کمرہ جس میں آج جہیز کی سب سے زیادہ ”قیمتی چیز“ موجود ہوگی! یعنی خود جہیزوالی۔۔۔۔! اُس کا جی چاہا کہ بےاختیار اُٹھ کھڑا ہو اور گھر کی طرف دوڑ جائے۔ مگر غریب پٹھان بھوکا ہے! اُس کي فکر نے اُسے پا بہ زنجیر کر رکھ اتھا۔ وہ اُسے اِس حالت میں چھوڑ کرجانےکی ہمّت اپنے آپ میں نہیں پاتا تھا۔ وہ اُسے  بھوکا چھوڑ کرکیونکر جائے؟ وہ اپنے دل کو اتنا سخت کیونکر بنائے؟

 

اُس نے پٹھان کی طرف دیکھا۔جس کی نظریں خالی پلیٹوں پرجمی ہوئی تھیں۔خداجانے وہ کب سے اِن بےدُھلی پلیٹوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اگر یہ خالی پلیٹیں اِس وقت کسی معجزہ کے اثر سے کھانے سے بھری ہوئی نظر آئیں تو اُسے کتنی مسرّت ہو! وہ خوشی کے مارے ناچنے لگے۔ اور شاید گھر تک ناچتا ہؤا جائے، مگر یہ اُمیدیں لاحاصل تھیں۔ دنیا میں کوئی خالی پلیٹ ایسا معجزہ نہیں دِکھا سکتی۔۔۔۔ خواہ وہ دنیا کے کسی عظیم ترین بادشاہ کے باورچی خانے کی پلیٹ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔!

خیالات کی پریشانی سے گھبراکر وہ اُٹھ کھڑاہؤا اور شیروانی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالےہوئے اِدھر اُدھر پِھرنے لگا ۔ اُس کی نظروں نے ایک مرتبہ اور کمرے کا جائزہ لیا۔ اُسے خیال آیا کہ اگر یہ ہوٹل اُس کا گھر ہوت ا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا۔ گھر کا خیال آتے ہی اُس نے سوچا کہ وہ پٹھان کو اپنے ساتھ گھر لےجائے اور کھانا کھلا کر۔۔۔۔ لیکن پٹھان کے پاس کرفیو پاس کہاں سے آیا؟ اور اُس کے ایک  پاس میں دونوں کا جانا یقینا ًخطرناک تھا۔ افسوس وہ اُسے اپنےساتھ بھی نہ لے جا سکتا تھا۔

”امجد آٹا تو کچھ ہوگا کچھ چپاتیاں ہی بنادیتے؟“اُس نے ٹہلتے ٹہلتے یک لخت رُک کر امجد سے کہا۔

”میاں آٹا تو تھوڑا سا موجود ہے۔ مگر چولھا باہر کی طرف ہے۔ آپ کی خاطر ابھی روٹی پکا دیتا۔ مگر اِس وقت۔۔۔۔آج کل آپ کو معلوم ہے۔۔۔۔ پولیس والوں نے دیکھ لیا تو بڑےگھر بھیج دیں گے۔۔۔۔ لینا ایک نہ دینا دو۔۔۔۔مفت میں۔۔۔۔“

”ٹھیک ہے“۔اُس نےامجد کی بات کاٹتےہوئےبےخیالی سےکہااورپھرٹہلنےلگا۔اُس کےخیالات ایک عجیب وغریب کشمکش میں مبتلا تھے۔پٹھان کھڑاہؤااُس کی طرف دیکھ رہاتھا۔سلیم کوایسامحسوس ہؤا کہ اُس کی حسرت بھری نظریں کبھی خالی برتنوں کاطواف کرتیں اورکبھی سلیم کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔

”سلیم صاحب کوئی پولیس والانہ آجائے۔“پھرپٹھان کی طرف رُخ کرتےہوئےاُس نےکہا”لوآغااب جاؤپولیس کےسوارآنےوالےہیں۔شایدتم سامنےوالےگھرمیں ٹھہرے ہوئےہو۔۔۔۔ کچھ بھی ہو۔اب جا کرآرام کرو“۔

پٹھان مایوس ہوکردروازے کي طرف بڑھا۔امجدنےآہستہ سےدروازے کی کُنڈی کھولی۔پھرایک پٹ تھوڑاساہٹایااورگلی میں جھانک کر دیکھا۔اُس کے بعد اُس نے سر کے اشارے سے پٹھان کو بلایا۔ پٹھان دروازے کےقریب آگیا۔

دفعتاً سلیم ٹہلتےٹہلتے رُک گیا۔“ ٹھہرنا۔۔۔۔ امجد۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ مگرذراٹھہرو۔۔۔۔“وہ دروازے کےقریب آگیااورپٹھان سےبولا”دیکھو خان!سیدھےانارکلی چلےجاؤ۔ میرا نام لےکرعثمانیہ ہوٹل کا دروازہ کھلوا لینا۔ نوکر دروازے کے ساتھ سوتا ہے۔اُس کا نام غلامی ہے۔ راستےمیں کوئی پولیس والا پوچھے تو یہ پاس دِکھادینا“۔

اُس نے اپنی جیب سے کرفیوپاس نکال کر پٹھان کي طرف بڑھادیا۔ پٹھان نے اُسے لےلیا اور ایک ممنونیت کی نظر اُس پر ڈالت اہؤا چپ چاپ گلی میں نکل گیا۔

”امجددروازہ بند کردواورمجھےایک پیکٹ سگریٹ دے دو۔کوئی بہت تلخ سگریٹ ہو۔ہاں کیوِنڈرٹھیک رہےگا۔۔۔۔ میں آج کی رات تمھارا مہمان ہوں۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں تمھاری چارپائی تمھیں مبارک ہو!۔۔۔۔۔۔ اخباری زندگی نے مجھے راتوں کو بنچوں پر سونےکا عادی بنادیا ہے۔“

ہوٹل کامالک سگریٹ دے کراپنی زمین بوس چارپائی پردرازہوگیااورسلیم ٹوٹی ہوئی بنچ پرلیٹ کرسگریٹ کےدھویں اُڑانےلگا۔

امجد کابیان ہے کہ اُس رات سلیم نیند میں یہ شعرگُنگنارہاتھا۔

 

”یاالہٰی پھر ہم  کو وہ گھڑی میّسر ہو

نرم نرم بیوی ہو، گرم گرم بسترہو!!“

 

                                                                                                                                                           ختم شد
تحریر : اختر شیرانی