• صارفین کی تعداد :
  • 1913
  • 2/7/2009
  • تاريخ :

کرفيو آرڈر (دوسرا حصہ)

lahor in old time

  دہلی دروازے سے آگےبڑھ کر،فوجی سپاہیوں کی ایک اور زبردست چوکی تھی۔ اُس کے قریب سے گذرتے ہوئے اُس کی رفتار بدستور تیز رہی ۔وہ شوق و مسرّت اور استقلال و جراءت کے عالم میں برابر آگے بڑھتا گیا۔ بہت سے گورے اور گور کھ اسپاہی جاگ رہےتھے۔ بعض سگریٹ پی رہے تھے۔ بعض نے بندوقیں سنبھال رکھی تھیں۔ زیادہ تر حِصّہ چارپائیوں پر دراز تھا۔ سرہانے کی طرف ایک دو بجلی کے پنکھے رکھے تھے مگر پچھلے پہر کی خنکی کی وجہ سے بند تھے۔ اِس جگہ کو پھوس کے ایک بہت بڑے چھپّر سے محفوظ کردیا گیا تھا۔ حکومت کو اندیشہ تھا کہ مسجد شہید گنج کا قضیہ جلد ختم نہ ہوگا۔ اِس لیے اپنے محبوب سپاہیوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے ایک عارضی چھت کی سخت ضرورت تھی۔ چاند نے بادل کا نقاب اُتار دیا تھا اوراُس کی روشنی میں یہ چھپّراِس  وقت ہیبت اوردہشت کامرقّع تھے۔پستہ قامت گوروں اورگورکھوں کو دیکھ کرسلیم نےاپنےدل میں کہا۔”یہ ہیں سواتین تين فٹ کےبوزنہ نماسپاہی جن کےبل پرشیرِبرطانیہ نےآدھی دنیاپرقبضہ کررکھاہے۔“اِس خیال کےآتےہی وہ پھرمسکرادیا۔اُسے اپنے کشیدہ قامت اور تنومند جسم کی طاقت کا احساس ہؤا۔۔۔۔ اگر اِن سپاہیوں میں سے کوئی اُسے چھیڑدے! کوئی اُس سے بےہودہ مذاق کرے! اُسے رات کو باہر نکلنے کےجرم میں روک لے۔۔۔۔

 

اُس کا ہاتھ پھر بےاختیار اُس کی جیب کی طرف  بڑھا۔۔۔۔ پاس موجودتھا!۔۔۔۔ لیکن اگر وہ پاس کے باوجود اُسے روک لیں۔۔۔۔!اُس کا دل بیٹھنےلگا۔ اُس کی نئی نویلی بیوی کی صورت اُس کی آنکھوں میں پِھرگئی۔۔۔۔ اُس کی نازک و نازنیں شخصیت نے اُس کی ہمّت بندھائی! اُس نے پھراُن بالشتيےسپاہیوں پر ایک حقارت کی نظر ڈالی۔”یہ سات آٹھ جو باہر کھڑے ہیں۔ اِن کے لیے تو میں کافی ہوں۔ اِن کے قبضے میں تو میں نہیں آسکتا۔ “اُس نے اپنا دایاں پاؤں زور سے زمین پر مارا۔ غصّے سے اپنی دونوں مٹھیاں بند کرکے اپنی کلائیوں اور بازوؤں کی طاقت کا اندازہ کيا۔ ايسا کرتے ہوئے اُس کي نظر چھپّر کے اندر چارپائيوں پر پڑي۔ اُن کی تعداد پچاس ساٹھ کے قریب معلوم ہوتی تھی۔اتنے سپاہیوں کا  وہ تنہا کیونکر مقابلہ کر سکتا تھا؟ اُس پر پھر مایوسی کا غلبہ ہونے لگا۔۔۔ ۔”مگر پاس کی موجودگی میں یہ لوگ مجھے کیوں روکنے لگے؟“ لیکن اندیشہ۔۔۔۔ اندیشے کی آواز کہہ رہی تھی۔” اِن کا کوئی بھروسہ نہیں مگر۔۔۔۔ کچھ بھی ہو وہ گھر ضرور جائےگا۔۔۔۔ گورکھے اور  گورے درکنار خود گورنر بھی آجائے تو وہ نہیں رُک سکتا۔ وہ کیوں کر رُک سکتا ہے؟ اُس کی بیوی منتظر تھی! آہ! وہ اُس کی حسين و مہ جبین بیوی! وہ اُس کی شیریں نو اور رنگین لقا بیوی!۔۔۔۔ جس نے اُس کی زندگی کو نئی نئی مسرّتوں سے آشنا کیا تھا! جس نے اُس کي ہستي کو ايک ابدي بےخودي کا گہوارہ بنا ديا تھا! وہ نئی نویلی دُلہن جس کے شاداب و سیاہ بالوں کی خوشبو اب تک اُس کے شامّہ کی فضاؤں میں بسی ہوئی تھی! جس کے ابریشمیں ملبوس کی عطرآگینی اب تک اُس کے تنفّس  میں موجزن تھی! نہیں نہیں! دنیا کی کوئی طاقت اُسے نہیں روک سکتی!

 

اب اُس کے قدم  پھر تیزی سے بڑھنے لگے۔ فوجی چوکی اور اُسی کے ساتھ  اُس کے خوف کو وہ پیچھے چھوڑ  آیا تھا۔ اُس وقت وہ شاہ محمدغوث کے مزار کے قریب تھا ۔جس کے دونوں طرف کئی قہوہ خانے آباد ہیں۔

چلتے چلتے دفعتا ًوہ رُک گیا۔ دائیں طرف کی ایک تنگ اور مختصر سی گلی سے(جوایک قہوہ خانے کی بغل میں تھی)اُسے دو شخصوں کے جھگڑنے کی سی آواز آئی۔ایک شخص کہہ رہا تھا۔ ”رُوتی کیوں نہئیں دیناسکتا۔تُورُوتی دےگا۔“اوردوسری آواز کہہ رہی تھی۔”خان صاحب!اللہ کی قسم روٹی اورسالن سب ختم ہوچکاہے۔“سلیم خودبھی کبھی کبھی اِس قہوہ خانے میں چائے پی جایا کرتا تھا۔ اِس لیے اُس نے پہلی آواز سنتے ہی معلوم کرلیا کہ کوئی تازہ وارد پٹھان ہے جو ہوٹل کے مالک سے کھانا طلب کر رہا ہے۔۔۔۔ سلیم نے چاہا کہ اپنی راہ چلاجائے۔ مگر یہ سوچ کر کہ شاید ہوٹل والا پولیس والوں کے ڈر سے اِس پٹھان کو اِس وقت کھانا نہیں دینا چاہتا۔ سفارش کی غرض سے گلی ميں مڑگیا۔

پٹھان ہوٹل کی پچھلی طرف کے بغلی دروازے کو پکڑے کھڑا تھا۔ چاندنی کا اِس گلی میں داخل ہونا محال تھا۔ تاہم اتنی روشنی ضرور تھی کہ وہ پٹھان کی بڑی سی پگڑی، سرخ مخملی واسکٹ، گھیردار شلوار، اور سیاہ داڑھی کو دیکھ سکے۔ اُس کے قریب پہنچا تو سلیم کو ہوٹل والا نظر آیا۔ جو دروازے کو دونوں ہاتھوں سے اِس طرح پکڑے کھڑا تھا جیسے اُسے اندیشہ ہے کہ پٹھان زبردستی اُس کے ہوٹل میں گھس آئےگا۔  اُس کے پیچھے کمرے کے ایک کونے میں ایک لالٹین روشن تھی ۔جس کی دھندلی روشنی ميں امجد کا قدنمایاں ہورہاتھا۔

”کیابات ہے!امجد؟اِنھیں کھانا کیوں نہیں دیتےتم؟“

”اخّاہ آپ ہیں؟میاں سلیم!میں توڈرگیاتھاکہ کوئی پولیس والاہے“یہ کہہ کروہ دروازے سےہٹ گیا۔سلیم اوراُس کےپیچھےپٹھان اندرداخل ہوگئے۔امجدنےجلدی سےدروازہ بندکرلیا۔ایساکرتےہوئےاُسکی نظریں پٹھان پرجمی ہوئی تھیں۔جیسےوہ اُسکی موجودگی سےرنجیدہ ہو۔ 

”آغا،ام گرسنہ بُوکابسیارسخت بوکا۔ولِکن یہ مالک کیتا۔۔۔۔رُوتی نئیں،رُوتی نئیں۔یہ کیس طرا کاآدم اے“۔ پٹھان نےسلیم کاہاتھ پکڑکر کہا۔

” کیوں امجد! کیا واقعی کھانا ختم ہے۔ دیکھو کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔“سلیم نےامجد سے کہا۔”میاں سلیم آپ کےسرکی قسم!کوئی چیزنہیں۔آج اللہ کافضل تھا۔گاہک بہت ۔۔۔۔“

”ذرا دیکھو بسکٹ، خطائی، پیسٹری کوئی چیز تو ہوگی۔“

”اللہ کی قسم جھوٹ نہیں بولتا۔شکر تک ختم ہے۔۔۔۔ “پھر پٹھان کو مخاطب کرکےبولا۔

”آغاجان اب جاؤ۔ کوئی پولیس والا آگیا تو مجھے اور تمھیں دونوں کو پکڑ کرلےجائےگا۔“یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھاتا کہ اُس کو باہر نکال کر دروازہ پھر بند کردے۔”مگر ام کیدر جائےگا۔آغاخدا اور رسول کا واسطہ ای ام زیاد پیسہ دیں گا۔“یہ کہہ کراُس نےسلیم کی طرف دیکھا۔ گویا مزید سفارش کاطلبگارہے۔مگرزیادہ کہناسننالاحاصل تھا۔سلیم کومعلوم تھا کہ امجد کے پاس واقعی کھانےپینےکی کوئی چیزنہیں بچی ہے۔ورنہ وہ کم سےکم اُس سے(سلیم سے) انکارنہ کرتا۔

 

                                                                                                                                                            جاری هے

تحریر: اختر شیرانی