انقلاب اسلامی کے حوالے سے آذر کے مہنے میں رونما ہونے والے اہم واقعات
3 آذر سنہ 1353 ہجری شمسی کو ایران کی سابق شاہی حکومت کی خفیہ پولیس ساواک کے ایجنٹوں نے تہران کی مسجد جاوید کو حکومت مخالف سرگرمیوں کی بنا پر بند کردیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عراق جلاوطنی کے عرصے کے دوران ایران میں حالات انتہائي سخت تھے اور کسی کو حکومت کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں تھی ایسے حالات میں مجاہد عالم دین آیت اللہ ڈاکٹر محمد مفتح نے تہران کی مسجد جاوید میں مذہبی اور علمی سرگرمیاں شروع کیں اور اس مسجد کو اسلامی اور انقلابی سرگرمیوں کا مرکز بنادیا جہاں شہید مرتضیٰ مطہری اور ڈاکٹر باہنر جیسے افراد تقریریں کرتے اور لوگوں میں بیداری کی لہر پیدا کرتے تھے ڈاکٹر مفتح نے عوام میں علمی اور مذہبی شعور پیدا کرنے کے لئے اس مسجد میں تفسیر قرآن ، نہج البلاغہ ،اصول عقائد ، اسلامی اقتصاد اور تاریخ ادیان و غیرہ کی کلاسیں بھی شروع کیں جن میں عوام خصوصا" نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شرکت کرنے لگی ۔حکومت کو یہ سرگرمیاں ایک آنکھ نہ بھائیں اور آخر کار 3 آذر سنہ 1353 ہجری شمسی کو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی تقریر کے بعد ساواک کے ایجنٹوں نے مسجد پر دھاوا بول کر اسے بندکردیا اور اس کے مہتمم اور امام جماعت آیت اللہ شہید محمد مفتح کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ۔
یکم آذر سنہ 1357 ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ماہ محرم الحرام کی آمد کی مناسبت سے پیرس سے ایرانی قوم کے نام پیغام بھیجا اور شاہ کی گرتی ہوئی حکومت کے پیکر پر آخری ضرب لگائی ۔اس پیغام میں انہوں نے ملت ایران کو شاہ کی مخالفت کو جاری رکھنے اور تیز کرنے کے لئے پوری قوت اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ تحریک چلانے کی دعوت دی ۔انہوں نے اس پیغام میں علماء اور واعظین سے فرمایا : الہی شمشیر محرم سے بھر پور فائدہ اٹھائیے تا کہ ظلم و ستم اور خیانت و غداری کے اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔اس پیغام میں انہوں نے اسلامی انقلاب کے مقدس ہدف و مقصد کو واضح طور پر بیان کیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ اہم اور تاریخی پیغام تیزی کے ساتھ پورے ایران میں لوگوں تک پہنچ گیا اور اس کے انتہائی اہم نتائج برآمد ہوئے اور شاہ کی دم توڑتی ہوئی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
آذر سنہ 1359 ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کے فرمان پر مستضعفین کی رضاکار فوج بسیج کا قیام عمل میں آیا ۔محنتی ، باایمان اور مختلف سماجی طبقات سے متعلق رضاکاروں کی اس عوامی تنظیم نے اسلامی انقلاب کی تحریک کے تمام محاذوں پر خاص طور سے عراقی جارجیت کے خلاف ملت ایران کے مقدس دفاع کے دوران کلیدی رول ادا کیا ہے ۔یہ تنظیم ایران کے سماجی ،اقتصادی ، تہذیبی میدانوں میں آج بھی جوش و جذبے کے ساتھ قائم و دائم ہے ۔بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے بسیج کی تعریف میں فرمایا تھا : یہ " اعلیٰ اسلامی اخلاق کی جلوہ گاہ اور عاشقان خدا اور حقیقی خدمت گاروں کا مجموعہ ہے ۔
" 12 آذر سنہ 1358 ہجری شمسی کو اسلامی جمہوریۂ ایران کا آئین ایرانی عوام کے اکثریتی ووٹوں سے منظور کیا گیا ۔اس آئین نے اسلامی جمہوریۂ ایران کی بنیاد اسلامی اقدار و تعلیمات ، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی مراعات پر استوار کی ۔یہ آئین 12 دفعات اور 175 شقوں میں مدوّن کیا گیا ۔واضح رہے کہ سنہ 1368 ہجری شمسی میں فقہا اور ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کی منظوری اور ریفرینڈم کے بعد آئین میں کچھ ترامیم کردی گئیں جس کے بعد اب ایران کا آئین 14 دفعات اور 177 شقوں پر مشتمل ہے ۔
22 آذر سنہ 1304 ھ ش کو ایران میں سلسلہ قاجاریہ سے پہلوی خاندان کی طرف حکومت کی منتقلی کے لئے تشکیل دی جانے والی مجلس مؤسسان نے آئین میں بنیادی تبدیلی کرکے اپنا کام مکمل کیا اور اس کے ساتھ ہی ایران پر قاجاریہ بادشاہوں کے 153 سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور 53 سالہ پہلوی عہد کا آغاز ہوا ۔ قاجاریہ اور پہلوی بادشاہوں کی مشترکہ خصوصیات ان کی ڈکٹیٹرشپ ، نااہلی اور اغیار کی اطاعت تھی ۔رضا خان ایک معمولی فوجی تھا برطانیہ کی سازش کے تحت سنہ 1299 ھ ش میں اس نے بغاوت کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا اور باقاعدہ طور پر ایران کا بادشاہ بن گیا ۔آخرکار سنہ 1357 ھ ش میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں ظالم پہلوی حکومت بھی سرنگوں ہوگئی ۔
آذر سنہ 1316 ہجری شمسی کو ایران کے مجاہد اور حریت پسند عالم دین آیت اللہ سید حسن مدرّس کو ایران میں پہلوی حکومت کے ظالم حکمران رضاخان کے آلۂ کاروں نے شمال مشرقی ایران کے شہر کاشمر میں شہید کردیا ۔وہ اپنی ابتدائي تعلیم مکمل کرنے کے بعد حوزۂ علمیہ نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے آیت اللہ میرزا شیرازی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا ۔اس کے بعد وہ ایران لوٹ آئے ۔آیت اللہ مدرس نے جب ظلم و ستم کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے حکومت وقت کے خلاف جد وجہد کا آغاز کردیا اور جب وہ تہران کے عوام کی جانب سے قومی پارلیمنٹ کے تیسرے دور کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے ایران کے ظالم حکمرانوں اور سامراجیوں کی مداخلت کے خلاف اپنی جد وجہد تیز کردی ۔
رضاخان پہلوی ان کو ہمیشہ اپنا سخت دشمن سمجھتا تھا ۔انہوں نے ایران کے نازک ترین حالات میں شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور قانون و انصاف اور دیانت کی بات کی ۔بہت سے لوگ ایسے تھے جو آیت اللہ مدرس کو سیاسی میدان میں زيادہ سرگرم رہنے سے روکتے تھے اور اس بہانے سے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ان کو نصیحت کرتے تھے اور بعض اوقات ان کی شان میں گستاخی بھی کرتے تھے ۔ لیکن آيت اللہ مدرس ان کو جواب میں کہتے تھے: " ہماری سیاست ہمارا دین اور ہمارا دین ہماری سیاست ہے "۔
بشکریہ اردو آئی آر آئی بی تہران