• صارفین کی تعداد :
  • 3688
  • 11/9/2008
  • تاريخ :

معراج سے صلح حدیبیہ تک

معراج

واقعہ معراج

تاریخ اسلام کے اس دور میں (بعثت سے عہد ہجرت تک) جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک واقعہ معراج بھی ہے۔ یہ کب پیش آیا اس کی صحیح و دقیق تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ بعثت کے چھ ماہ بعد اور بعض کی رائے میں بعثت کے دوسرے تیسرے، پانچویں، دسویں، گیارہویں یا بارہویں سال میں رونما ہوا۔

(الصحیح من السیرة ج۱، ص ۲۲۹، ۲۷۰)

جب ہم رسول اکرم کی معراج کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہیں۔ ان میں سے ایک اسراء ہے اور دوسرا معراج۔

اسراء یا رات کے وقت آنحضرت کا وہ سفر ہے جو مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ تک ہوا تھا چنانچہ اس کے بارے میں قرآن مجید کا صریح ارشاد ہے:

سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا

”پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جن کے ماحول کو اس نے برکت دی تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔“

جملہ ”سبحان الذی“ اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ سفر خداوند تعالیٰ کی قدرت کے پرتو میں انجام پایا تھا۔

جملہ ”اسریٰ بعبدہ لیلا“ سے یہ مطلب واضح ہے کہ اس سیر کی علت ذات خداوندی تی اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ رات کے وقت ہوئی، اس کے علاوہ لفظ ”لیلا“ سے بھی وہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے جو لفظ ”اسریٰ“ سے سمجھ میں آتا ہے۔ کیونکہ عربی میں یہ لفظ رات کے وقت سفر کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ ”سفر“ جسمانی تھا۔ اگر روحانی ہوتا تو اس کے لیے لفظ ”بعبدہ“ کے ذکر کی ضرورت پیش نہ آتی۔

مذکورہ آیت کی رو سے اس ”سفر“ کا آغاز ”مسجدالحرام“ سے ہوتا ہے اور اختتام ”مسجدالاقصیٰ“ پر اور آخر میں اس سفر کا یہ مطلب بتایا گیا ہے کہ خداوند تعالیٰ کو اپنی نشانیاں دکھانا مقصود تھیں۔

”معراج“ اور ملکوت اعلیٰ کی سیر کے بارے میں بہت سے محدثین اور مورخین کے نظریات کی بنیاد پر تحقیقات کی جا چکی ہیں، اگرچہ سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ شب معراج شب اسراء ہی ہے۔

(تاریخ پیغمبر، مولفہ مرحوم امینی ص۱۰۹)

 

ہر چند مذکورہ بالا آیات سے پورے طور پر یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ لیکن سورہ ”النجم“ کی آیت اور بہت سی ان روایات کی مدد سے جو معراج کے متعلق ہم تک پہنچی ہیں یہ ثابت ہو جاتا ہے۔

چنانچہ علامہ مجلسی مرحوم متعلقہ آیات بیان کرنے کے بعد معراج کے بارے میں لکھتے ہیں:

”رسول خدا کا بیت المقدس کی جانب عروج کرنا اور وہاں سے ایک ہی رات میں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھی بدن مبارک کے ساتھ ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ایسی آیات اور متات شیعہ سنی روایات ہم تک پہنچی ہیں جو اس واقعے کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کرنا یا روحانی معراج کی تاویل پیش کرنا یا اس واقعے کا خواب میں رونما ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کہنے والے نے پیشوایان دین کی کتابوں کا کم تتبع کیا ہے اور یا یہ بات اس کی ایمان کی کمزوری و ضعف اعتقاد پر مبنی ہے۔

 (بحار، ج۸، ص۲۸۹)

حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کا ردعمل

حضرت ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش کی گستاخیاں بڑھ گئیں اور وہ بہت زیادہ بے باک ہوگئے، پہلے سے کہیں زیادہ رسول خدا کو آزار و تکلیف پہنچانے لگے، دین اسلام کی تبلیغ کے لیے انہوں نے آپ پر سخت پابندیاں لگا دیں، اور اس کا دائرہ بہت محدود کر دیا چنانچہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ حج کے زمانے کے علاوہ اپنے دین و آئین کی تبلیغ نہیں کرسکتے تھے۔

 

رسول خدا کا یہ فرمانا کہ ”جب تک ابوطالب زندہ رہے قریش مجھے ایسی گزند نہیں پہنچا سکے جو میرے لیے سخت ناگوار ہوتی۔“ (السیرة النبویہ، ج۲، ص ۵۸)

اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کی جانب سے ایذا رسانی اور شکنجہ کشی کی واردات میں اضافہ ہو گیا تھا۔ مگر ان سختیوں اور پابندیوں کے باوجود رسول خدا ان مہینوں میں جو ماہ حرام قرار دیئے گئے تھے موقع غنیمت سمجھتے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے، چنانچہ حج کے تین ماہ کے دوران ”عکاظ“ محجنہ“ اور ”ذوالمجاز“ کے بااروں کے علاوہ جہاں بھی لوگ جمع ہوتے رسول خدا ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ وہاں سردارانِ قبائل نیز سربرآوردہ اشخاص سے ملاقات کرتے اور ہر ایک کو آسمانی آئین کی دعوت دیتے تھے۔

 

ان ملاقاتوں کی وجہ سے ہر چند رسول خدا کی مخالفت کی جاتی اور ان کے بعد سردارانِ قبائل کا ردعمل ظاہر ہوتا۔ لیکن مخالفت اور ردعمل کے باوجود یہ ملاقاتیں نہایت ہی مفید اور ثمر بخش ثابت ہوئیں۔ کیونکہ کوئی بھی فرد یا قبیلہ ایسا نہ ہوتا جو مکہ میں داخل ہوتا اور اس تک کسی نہ کسی طرح رسول خدا کی دعوت کا پیغام نہ پہنچتا، چنانچہ فریضہ حج کے ادا کرنے کے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات کو دوران حج کے اہم واقعے یا خبر کی صورت میں دوسروں کے سامنے بیان کرتے۔

 

قبیلہ بنی عامر بن صعصہ ان مشہور قبائل میں سے تھا جس کے افراد کو رسول خدا نے وحدت پرستی کی دعوت دی۔

”بیحر“ ابن فراس کا شمار اس کے قبیلے کے سربرآوردہ اشخاص میں ہوتا تھا۔ اسے رسول اکرم کی شہرت اور قدر و منزلت کے بارے میں کم و بیش علم تھا۔ اس نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا:

”خدا کی قسم! اگر قریش سے میں اس نوجوان کو حاصل کرلوں تو اس کے ہاتھوں میں عرب کو نگل جاؤں گا۔

(یعنی اس کے ذریعہ دنیوی مال و متاع حاصل کروں گا۔)“

چنانچہ یہ سوچ کر وہ رسول خدا کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر ہم تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور تمہارا خدا ہمیں تمہارے مخالفین پر کامیاب بھی کر دے تو کیا تمہاری قوم کی رہبری و سرداری ہمیں واگذار کر دی جائے گی؟ اس پر رسول خدا نے فرمایا:

”یہ خدا کا کام ہے وہ جسے اہل سمجھے گا اسے جانشین مقرر کرے گا۔“

بیحرہ نے جب رسول اللہ سے یہ جواب سنا تو کہنے لگا کہ ہم تمہاری خاطر عربوں سے جنگ کریں اور جب کامیاب ہو جائیں تو قوم کی رہبری دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائے ایسی جنگ اور رہبری سے ہم باز آئے۔

(السیرة النبویہ، ج۱، ص ۱۶)

رسول اکرم کی اس گفتگو کے اہم نکات

          عام مشاہدہ ہے کہ اہل سیاست اقتدار حاصل کرنے سے قبل عوام و قوم سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں۔ جنہیں وہ کبھی پورا نہیں کرتے۔ لیکن پیغمبر اکرم نے موجودہ سیاست کی روش کے برعکس قبیلہ ”بنی عامر“ کی اس شرط پر کسی قسم کا وعدہ نہیں کیا۔

 قول پیغمبر اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ مسئلے امامت امر الٰہی پر منحصر ہے اور خداوند تعالیٰ جسے اس کا اہل سمجھے گا اسے پیغمبر کا جانشین مقرر کرے گا۔

 

یثرب کے لوگوں کی دین اسلام سے واقفیت

جس وقت بنی ہاشم اور بنی مطلب شعب ابوطالب میں محصور تھے اس وقت یثرب سے ”اسعد ابن زرارہ اور ذکوان ابن عبدالقیس“ قبیلہ خزرج کا نمائندہ بن کر مکہ میں اپنے حلیف ”عقبہ ابن ربیعہ“ کے پاس آئے اور قبیلہ اوس سے جنگ کے سلسلے میں مدد چاہی۔

عقبہ نے مدد کرنے سے عذر ظاہر کیا اور کہا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان طویل فاصلہ ہونے کے علاوہ ہم یہاں ایسی مصیبت میں گرفتار ہیں کہ جس سے نجات پانے کے لیے ہمارا کوئی بس نہیں چل رہا ہے۔ اس نے ”نبی اکرم‘و اور آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے واقعات قبیلہ ”خزرج“ کے نمائندگان کو بتائے اور تاکید سے کہا کہ وہ آنحضرت سے ہرگز ملاقات نہ کریں، کیونکہ وہ شخص ساحر و جادوگر ہے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو رام کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ”اسعد“ کو حکم دیا کہ جس وقت کعبہ کا طواف کرے تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لے تاکہ پیغمبر کی آواز اس کے کاوں میں نہ پہنچے۔

 حضرت محمد رسول الله

”اسعد“ طواف کعبہ کے ارادے سے ”مسجد الحرام“ میں داخل ہوا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم ”حجر اسماعیل“ پر تشریف فرما ہیں۔ ا نے خود سے کہا کہ میں بھی کیسا نادان ہوں بھلا ایسی خبر مکہ میں گرم ہو اور میں اس سے بے خبر رہوں۔ میں بھی تو سنوں کہ یہ شخص کیا کہتا ہے تاکہ واپس اپنے وطن جا کر لوگوں کو اس کے بارے میں بتاؤں۔ رسول خدا کی باتیں سننے کی خاطر اس نے روئی اپنے کانوں سے نکال دی اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت نے اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا اور ایمان لے آئے۔ اس کے بعد ”ذکوان“ نے بھی دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا۔

(الصحیح من السیرة النبی ج۲، ص ۱۹۰، ۱۹۱)

اہل یثرب میں یہ پہلے دو افراد تھے جو ایمان لائے اور دین اسلام سے مشرف ہو کر واپس اپنی قوم میں پہنچے۔

دوسرے مرحلے پر اہل یثرب میں وہ چھ اشخاص جن کا تعلق ”خزرج‘و سے تھا۔ بعثت کے گیارہویں سال دوران حج پیغمبر اکرم کی ملاقات سے مشرف ہوئے۔

 

رسول خدا نے انہیں دین اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ وہ رسول خدا کی ملاقات کا شرف حاصل کرکے اور آپ کی زبان مبارک سے بیان حق سن کر ایک دوسرے سے کہنے لگے:

خدا کی قسم یہ وہی پیغمبر ہے جس کے ظہور کی خبر دے کر یہودی ہمیں خوف دلایا کرتے تھے۔ آؤ پہلے ہم ہی دین اسلام قبول کرلیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس کار خیر میں وہ ہم پر سبقت لے جائیں۔ یہ کہہ کر ان سب نے دین اسلام اختیار کر لیا۔ جب وہ واپس یثرب گئے تو انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو بتایا کہ انہوں نے کیسے رسول خدا سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور انہیں بھی دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

 

تیسرے مرحلے پر اہل یثرب میں سے بارہ اشخاص جن میں سے دس کا تعلق قبیلہ ”خزج“ سے تھا اور دوسرے کا قبیلہ ”اوس“ سے بعثت کے بارہویں سال ”عقبہ منا“ میں رسول خدا کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔ ان بارہ اشخاص میں سے جابر ابن عبداللہ کے علاوہ پانچ افراد وہ تھے جو کہ ایک سال قبل بھی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرچکے تھے۔

 

ان اشخاص نے دین اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اکرم کے دست مبارک پر ”بیعت نساء“ کے طریقے پر بیعت کی، اور عہد کیا کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے، چوری سے باز رہیں گے، زنا کے مرتکب نہ ہوں گے، اپنی لڑکیوں کے قتل کو ممنوع قرار دیں گے، ایک دوسرے پر الزام و بہتان نہ لگائیں گے نیز کار خیر میں رسول اللہ کا ہر حکم بجا لائیں گے۔

 

رسول خدا نے مصعب ابن عمیر کو ان کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں پہنچ کر وہ دین اسلام کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں، اس کے ساتھ ہی وہ آنحضرت کو شہر کی حالت کے بارے میں اطلاع دیں نیز یہ بتائیں کہ وہاں کے لوگ دین اسلام کو کس سطح پر قبول کر رہے ہیں۔ ”مصعب پہلے مسلمان مہاجر تھے جسے یثرب پہنچنے اور روزانہ باجماعت نماز کا وہاں انتظام کیا۔

محمد-ص- رسول الله

عقبہ میں دوسری مرتبہ بیعت

یثرب میں رسول خدا کے نمائندے کی موجودگی اور خزرجی اور اوسی قبائل کے افراد کی بے دریغ و سرگرمی اس امر کا باعث ہوئی کہ ان قبائل کے بہت سے لوگ دین اسلام کے والہ و شیفتہ ہوگئے۔

چنانچہ چوتھے مرحلے پر اور بعثت کے بارہویں سال تقریباً پانچ سو عورتوں اور مردوں نے خود کو حج کے لیے آمادہ کیا۔ جن میں تہتر افراد مسلمان مرد اور دو مسلمان خواتین شامل تھیں۔

قبل اس کے کہ اہل یثرب سفر پر روانہ ہوں ”مصعب“ مکہ کی جانب روانہ ہوئے اور اپنے سفر کی پوری کیفیت پیغمبر اکرم کی خدمت میں پیش کی۔

یثرب کے مسلمانوں نے مناسک حج انجام دینے کے بعد بارہ ذی الحجہ بوقت نصف شب عقبہ منا میں رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کیا۔

 

رسول خدا نے اس مرتبہ ملاقات کے دوران قرآن مجید کی چند آیات حاضرین کے سامنے تلاوت فرمائیں اور انہیں دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس ضمن میں آنحضرت نے حاضرین سے فرمایا جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو اگر میری بھی حمایت کرو تو میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے آنحضرت کی بات سے اتفاق کیا اور یہ عہد کیا کہ وہ آپ کی حمایت اور پاسبانی کریں گے۔ آخر میں رسول خدا کے حکم سے ان میں سے بارہ افراد ”نقیب“ مقرر کیے گئے۔ تاکہ وہ لوگ اپنی قوم کے حالات کی نگہبانی اور پاسداری کرسکیں۔

”خزرج“ اور ”اوس“ جیسے طاقتور قبائل کے ساتھ عہد و پیمان کرنے نیز دین اسلام کے لیے جدید اساس گاہ قائم ہو جانے کے باعث اب رسول اکرم اور مسلمانوں کے لیے جدید سازگار صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔

 

اس عہد و پیمان کے بعد پیغمبر اکرم کی جانب سے مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ چاہیں تو یثرب کا سفر اختیار کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے فرمایا:

خداوند تعالیٰ نے تمہارے لیے بھائی پیدا کر دیئے ہیں۔ نیز تمہارے لیے گھروں کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد سے تم وہاں امن و امان سے رہو گے۔

رسول خدا سے اجازت ملنے کے بعد مسلمان گروہ درگروہ یثرب جانے لگے۔ اور اب پیغمبر اکرم خود بھی حکم خداوندی کے منتظر تھے۔

(السیرة النبویہ ج۲، ص۱۱۱)

                                 اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

پیغمبر اسلام(ص) کا استقبال اور ہمراہی کرنا

 تاریخ اسلام

 پیمان برادری