بچے کھانے کھانے سے کيوں کتراتے ہيں؟
اکثر خواتين کو يہ شکايت رہتي ہے کہ ان کا بچہ کچھ کھاتا نہيں ، زبردستي کھلانا پڑتا ہے، دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے، ان کي سمجھ ميں نہيں آ رہا کيا کريں، کہ بچہ کھانے کي جانب راغب ہو جائے والدين يہ سمجھتے ہيں کہ وہ بچے کے ہر عمل کو جانتے ہيں حالانکہ اکثر ايسا نہيں ہوتا، بچہ والدين کے ذہن سے سوچنے کے عمل ميں بہت پيچھے ہوتا ہے، والدين کو بچہ بن کر اس کے مسائل سمجھنےکي کوشش کرنا چاھئيے۔
اکثر گھروں ميں ہر فرد اپني بھوک، وقت اور سہولت کے مطابق کھانا کھاتا ہے سب لوگ اکھٹے نہيں کھاتے يہ فعل بچے کے اندر کھانے کے متعلق محبت يا شوق کا جذبہ پيدا نہیں ہونے ديتا، ڈائنگ ٹيبل يا دسترخوان پر اکھٹا کھانا کھاتے وقت گھر کے تمام افراد ايک دوسرے سے منسلک ہو جاتےہيں اس لئيے اگر بچہ کھانا کھا رہا ہے تو کبھي باپ ماں يا بہن بھائي اور دادی وغيرہ بچے کو پيار سے کسي نہ کسي طرح کھانا کھلا ديتے ہيں۔
عموما ايسا ہوتا ہے کہ بچے کھانا کھانے سے دور بھاگتے ہيں، يا پھر بہت کم خوارک کھاتے ہيں ايسے ميں والدين بچوں کو زبردستي کھانا کھلانے کي کوشش کرتے ہيں جو کہ بچوں کي صحت کيلئے مضر بھي ثابت ہو سکتا ہے، بچہ ذہني طور پر کھانے کيلئے تيار نہيں ہوتا لہذا اس کا نظام ہاضمہ بھي درست طريقے سے کام نہيں کرتا ہے، لہذا اسے جو خوراک دي جائے اس کا صحت پر منفي اثر پڑے گا۔
اگر ايسا آپ کے بچے کے ساتھ ہوتا ہے تو کوشش کريں کہ بچوں کيلے نت نئي ڈشز تيار کريں يعني يکسانيت کا شکار نہ ہوں، کھانا ايسا ہو جو نہ کہ مزيدار ہو بلکہ غذائيت سے بھر پور بھي، تاکہ بچے کو جس تناسب اور مقدار ميں غذائيت کي ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملے اگر بچہ ايک مرتبہ ميں مناسب مقدار ميں غذا نہيں لے رہا تو اسے ہلکے پھلکے غذائيت سے بھر پور اسنيکس کھلائيں، مثلا سينڈوچز، بچوں کے پسنديدہ اسنيکس بے شمار ہوتے ہيں جس ميں مرغي، مچھلي يا گوشت استعمال ہو سکتا ہے جس سے بچے کو پروٹين اور توانائي حاصل ہوتي ہے اس کے علاوہ دودھ اور دودھ سے بني ہوئي اشيا بھي مفيد ثابت ہوتي ہيں دودھ ميں کيلشئيم موجود ہوتا ہے جو نا صرف دانتوں اور ہڈيوں کي مظبوطي کا ضامن ہے بلکہ مجموعي طور بھي صحت کيلئے بے حد ضروري اور لازمي ہے اس ليے ایسے کھانے اور غذا کو بچوں کي خوراک کا حصہ بنا ليں جن ميں آئرن بھي شمل ہو اس سلسلے ميں ہري سبزياں، پھلياں اور سلاد وغيرہ استعمال ہو سکتے ہيں، وٹامنز بھي بچوں کي صحت کيلئے بے حد ضروري سمجھے جاتے ہيں، ويسے تو تمام وٹامنز صحت کيلئے مفيد ہيں مگر وٹامن سي زيادہ اس ليے اہم ہے کہ يہ خوراک سے فولاد کے حصول کو ممکن بنانے ميں زيادہ مددگار ثابت ہوتا ہے، وتامن سي کے حصول کا بہترين ذريعہ سنگترا کا رس ہو سکتا ہے، خشک ميوہ جات بھي بچوں کيلے مفيد ثابت ہوتےہيں، ويسے خشک ميوہ جات کھانے کا ايک نقصان يہ ہے کہ اگر انہيں ويسے کھايا جائے تو ان کے ذرات دانتوں پر چپک جاتے ہيں جس سے دانتوں کے خراب ہونے کا انديشہ ہے، لہذا بہتر يہ ہوتا ہے کہ ميوہ جات کو ديگر کھانے پينے کي اشيا کے ساتھ بچوں کو کھانےکو ديں کيونکہ کھانا کھاتے وقت جو تھوک بنتا ہے اس سے خشک ذرات دانتوں پر نہيں چپکتے ہيں، ميوہ جات آئرن کے حصول کا بہترين ذريعہ ہيں۔
ماں کو چاھئيے کہ وہ کھانے کے دوران بچے کو کہاني يا کوئي اور دلچسپ بات سناتي رہيں، اس طرح بچہ متوجہ ہوکر کھائےگا چھوٹے بچوں کي خوارک کا شيڈول اکثر مائيں تبديل نہيں کرتي۔ ھفتے بھر بچے کو دليہ کھلاتي رہتي ہيں لہذا بچہ تنگ آ کر کھانے سے انکار کرديتا ہے تو وہ زبردستي کھلاتي ہيں بلکہ اکثرکوشش کرتي ہيں اکثر مائيں تو بچے کو لٹا کر زبردستي منھ کھول کے چمچے اس کے حلق مين انڈيلتي ہيں، بچہ چيختا ہے مگر ان پر اثر نہیں پڑتا ہے، ضروري ہے کہ بچے کيلئے روز نہيں تو تيرے دن خوارک ضرور بدل ديں خوراک بدلنے سے مراد نرم اور زود ہضم کے بجائے سخت ثقيل چيزيں نہيں بلکہ دلئيے کو فيرکس،کارن فليکس، سيريليک، دودھ سوجي، کيلا، ساگودانہ کي کھير، سوپ وغيرہ سے بدل ديں۔
ماں نے بچےکي خوراک کا وقت متعين کيا ہوتا ہے جو کسي حد تک صحيح ہے مگر بچہ اگر درميان ميں بسکٹ مانگ لے يا فيڈر کے دو گھونٹ پينا چاھے تو کوئي حرج نہيں کيونکہ بچے کے جسم ميں جب گلوکوز کي کمي ہو تو وہ کچھ طلب کرتا ہے ليکن مائيں اس بات کو نہيں سمجھتيں ان کے خيال ميں بچہ پيٹ بھر کر کھا چکا ہے اس لئيے اب اسے اور کھانے کي کيا ضرورت ہے؟ ياد رکھيں بچہ صرف بھوک محسوس کرنے پر ہي نہيں مانگتا بلکہ اگر وہ خود کو غير محفوظ تصور کرے يا ماں کي توجہ حاصل کرنا چاھے تو کسي اور طريقے سے کامياب نہ ہونے پر دودھ مانگے گا کيونکہ وہ جانتا ہے کہ اس وقت ماں اس کو گود ميں لے کر يا پاس لٹا کر دودھ پلائے گي، بچہ صرف بے وقت بھوک اس صورت ميں محسوس کرے گا جب آپ نے خوراک اسے دوپہر ميں يا صبح دي ہو اسے تسلي بخش طريقے سے نہيں کھا سکا يا اس خوراک ميں متوازن غذا کا خيال نہيں رکھا گيا اس کے علاوہ کوئي مزيدار چيز ديکھ کر يا ماں يا کسي مہمان کو ديکھ کر بھي اس ميں بھوک کا احساس پيدا ہو سکتا ہے، بچوں کے ساتھ ساتھ اس عمل سے بڑے بھي مبرا نہیں ہيں۔
جن گھرانوں ميں ماں نوکري کرتي ہے وہاں اکثر آيا کو بچے کيلئے مقرر کرديا جاتا ہے، بچہ ماں کي شفقت اور پيار بھرا چہرا اپنے ارد گرد نہيں ديکھتا تو اکيلے پن کا احساس اسے گھير ليتا ہے، اور بچہ کي بھوک کا سوئچ آف ہو جاتا ہے، اور وہ کھانے کي طرف راغب نہيں ہوتا ہے يا بہت تھوڑا کھانا کھاتا ہے آيا اسے اپنے لئيے مصيبت سمجھتي ہے اور جھڑک ديتي ہے جس سے بچہ اور بگڑ جاتا اور اسے کھانے سے نفرت ہوجاتي ہے۔
بچے کے کئي نفسياتي مسائل مثلا ضد، چڑ چڑا پن، بےجا رونا، توڑ پھوڑ کرنا وغرہ خواراک کي وجہ سے پيدا ہوتے ہيں بچے کي خوراک اگر غذائيت سے بھر پور نہيں تو بچہ بے چين ہوکر روئے گا چيزيں ادھر ادھر پھينکے گا اگر کھانے کے وقت بے جا ضد کرے تو بجائے ڈانٹنے کے آپ ضد کي وجہ معلوم کريں، ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے ہاتھ سے کھانا چاہتا ہو يا ڈائينگ ٹيبل کے بجائے فرش يا قالين پر بيٹھ کر کھانا چاہتا ہو يا کہيں درد محسوس کر ليا ہومگر آپ کو بتانا پا رہا ھو ڈائينگ ٹيبل پر بيٹھے کسي شخص سے خوف زدہ ہو يا اجنبيت محسوس کر رہا ہو۔
بچوں کو کھانا دينے کے سلسلے ميں چند باتوں کا خيال رکھنا ضروري ہے کہ جب بھي بچوں کو کھانا ديں وہ بہت زيادہ گرم نہ ہو کيونکہ بہت زيادہ گرم کھانا انہيں اس خوف ميں مبتلا کر دے گا کہ کہيں انکا منہ جل نہ جائے اور يوں انہيں تکليف کا احساس ہو گا اگر کھانے ميں سالن يا شوربہ کي مقدار بہت کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بچے کو خواراک نگلنے ميں مشکل درپيش آئےگي لہذا ايسي ڈشز بنانے کو ترجيح ديں جس ميں سالن کا تناسب زيادہ ہو۔
بچوں کے کھانے پينے کي عادات ميں تبديلي لانے ميں ماں کا کردار سب سے زيادہ اہم ہوتا ہے ۔ کم کھانا يا بالکل نہ کھانا بہت خطرناک يا مہلک بات نہيں ہے بلکہ ماہرين کے مطابق يہ بات اس چيز کي نشاندہي کرتي ہے کہ بچہ نارمل طريقے سے بڑا ہو رہا ہے اور اپني خود مختاري دکھانا چاہتا ہے۔
ضروري نہیں کہ اگر بچہ کھانا نہيں کھا رہا ہے تو محض کھانا کھلانے کي خاطر ہميشہ بچے کي پسنديدہ غذا تيار کريں، کيونکہ بچپن ميں جو عادات پختہ ہوجائيں گي وہي عادات بعد ميں بھي قائم و دائم رہيں گی، مثال کے طور پر اگر بچہ صرف ميٹھي اشيا کھانا پسند کرتا ہے تو يہ باتس درست نہیں کہ ہميشہ ميٹھا بنا کر کھلايا جائے ويسے بھي زيادہ ميٹھا کھانا دانتوں کے ليے مضر ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ بڑي عمر تک پہنچنے کے بعد ذيابطيس کا باعث بھي بنتا ہے۔
ايک ہي قسم کي غذا ديان محض اس وجہ سے کہ وہ غذائيت بخش ہے درست نہيں ہے مثلا اگر بچہ سبزيوں ميں صرف مڑ کھانا پسند کرتا ہے تو اس کے علاوہ ديگر سبزياں کھلانے کي طرف بھي راغب کريں جو کہ اسي رنگ اور غذائيت والي ہوں، اگر بچہ کھانا نہيں کھاتا تو زبردستي نہ کريں اور اگر کھا ليتا ہے تو اس کي تعريف کريں ايسا کرنے سے بچےميں يہ احساس اجاگر ہو گا کہ ميرے والدين خصوصا ماں خوش ہوتي ہے، اور نہ کھانے پر ناراض نہيں ہوتي ہے تو وہ خود بخود کھانے کي طرف راغب ہوجائےگا، بس بچے کے ساتھ زبردستي نہ کريں کہ يہ منفي اثرات کا سبب بنتا ہے اور بچہ بھي پريشاني ميں مبتلا ہوتا ہے اس کے علاوہ گھر کے افراد اکھٹے کھانا کھائيں اور کھانا کھاتے وقت حتي لاماکن جھگڑے سے پرہيز کريں کہ بچہ محسوس نہ کرے کہ کھانا ايسا فعل ہے جس ميں سب لڑتے ہيں اور اس سوچ کي بنا پر وہ کھانے کي طرف راغب نہيں ہوگا، کھانا کھاتے وقت ايک دوسرے پرچيخنا چلانا يا ڈانٹ ڈپٹ کرنا بھي بچے کو کھانے سے نفرت دلاتا ہے لہذآ ان باتوں کا خاص خيال رکھا جائے تو بچہ کھانے کي طرف راغب ہو سکتا ہے۔
اردو آئی پاکی ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
دور حاضر میں خواتین کا کردار اور بچوں کی تعلیم و تربیت
اولاد کی تعلیم و تربیت کی فکر