• صارفین کی تعداد :
  • 3031
  • 11/4/2008
  • تاريخ :

 ویٹیکن اور مصرمیں ایران کے سابق سفیر جناب سید خسروشاہی کا انٹرویو 

جناب سید خسروشاہی  اور پاپ 

وھابیت نے ابتدا ہی سے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی ہے ۔

ویٹیکن میں ایران کے سابق سفیر سید ھادی خسروشاہی نے کہا ہے کہ وھابیت اھل سنت کے چار مذاھب کے پیرووں کو بھی حقیقی مسلمان نہیں سمجھتی انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے وہابیت کے وجود میں آنے کے بعد اب تک شیعہ سنی اختلافات پھیلانے کی کوششیں کی ہیں ۔

سید ھادی خسروشاہی نے فارس نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوۓ علاقے میں ایران کے خلاف علاقے کے رجعت پسند ملکوں اور امریکہ و برطانیہ کی سازش سے مذموم اتحاد کی تشکیل کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی کے انتباہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران بہت سے قرائن و شواھد سامنے آۓ ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ یہ کام ہو رہا ہے ۔

جناب خسروشاہی نے کہا کہ سب سے پہلے مصر کے صدر حسنی مبارک نے صیہونیوں پرجو کہ مصر کے اتحادی ہیں حزب اللہ کی کامیابی کے بعد کہا کہ عرب ملکوں کے شیعہ اپنے ملک کی بہ نسبت ایران کے زیادہ وفادار ہیں،اس کے بعد شاہ اردن نے کہ جن کے والد سادات کے گھرانے اور اھل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدت مند ہونے کا دعوی کرتے تھے ھلال شیعی کے بارے میں خبردار کیا۔

 

انہوں نے کہا کہ ان بیانات کے ساتھ ساتھ عراق میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام ،وھابیوں کی جانب سے کاربم دھماکے شیعوں کے مقدس مقامات میں تکفیری عناصرکے بم دھماکے علماء شیعہ اور مذھبی شخصیتوں کا قتل عام شروع ہو گيا اور ان سازشوں پر پاکستان وافغانستان میں بھی عمل کیا جانے لگا ۔

خسروشاہی نے کہا کہ ان اقدامات کے بعد شیعوں کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپگينڈا کیا جانے لگا اور خلیج فارس کے بعض ملکوں میں شیعوں پردباؤ بڑھا دیا گيا یہانتک کہ ان کی مسجدوں اور امام بارگاہوں کو بھی بند کر دیا گيا ۔

 

انہوں نے کہا کہ شیعوں کے خلاف بعض عرب ملکوں میں سلفی وھابی علماء کی تقریریں ،آل سعود کے دربار سے وابستہ وھابی علماء کی جانب سے شیعہ مسلمانوں کا قتل جائز ہونے کا فتوی (یاد رہے اھل مصر ان وھابی علماء کو فقہاءالبترول یعنی پٹرول کے پیسے سے وابستہ فقہاء اور علماءالشرطۃ و السلطۃ یعنی پولیس و طاقت کے ملاوں کے ناموں سے یاد کرتے ہیں ) یا امریکی نائب صدر چینی سے ملاقات میں سعودی سربراہ کا یہ کہنا کہ وہ عراق میں سنیوں کی نجات کے لۓ امریکہ کی مالی مدد کرنے کو تیار ہیں اور آخر میں برطانوی وزیراعظم کا مشرق وسطی کا دورہ جس میں انہوں نے ایران کے خلاف اعتدال پسند عرب ملکوں کے اتحاد کی ضرورت پر تاکید کی اور دیگر دسیوں امور ایسے ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ ایران کے خلاف علاقے کے رجعت پسند سربراھان مملکت ایک ناپاک اتحاد بنانےکی کوشش میں ہیں۔

 

جناب خسروشاہی نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صدام کی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران صدام کو اسی ارب ڈالر کی مالی امداد دی تھی تاکہ صدام ان کے بقول فرس المجوس یعنی ایران کے خلاف لڑسکے انہوں نے کہا ان جنگي جرائم کے نتائج سے سب واقف ہیں ۔

جناب خسروشاہی نے اس سوال کے جواب میں کہ عراق میں شیعہ سنی اختلافات پھیلانے اور تشدد کو بڑھاوا دینے میں سعودی عرب کا کیا کردار ہے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب نے وھابیت کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہمیشہ عالم اسلام میں تفرقہ پھیلانے کی کوششیں کی ہیں اور اب بھی اسی نہج پر گامزن ہے انہوں نے کہا وھابی نہ صرف شیعہ مسلمانوں کو رافضی اور اسلام سے دور سمجھتے ہیں بلکہ اھل سنت کے چار مذاھب کے پیرووں کو بھی حقیقی مسلمان نہیں سمجھتے اور ان کی نظر میں ابن تیمیہ اور محمد ابن عبدالوھاب کے پیروو ہی سچے مسلمان ہیں اور جو ان کے عقائد واصول قبول نہ کرے وہ غیر مسلم ہے اور اس کا قتل جائزہے۔

سید خسروشاہی نے کہا کہ سعودی عرب اسلامی ملکوں میں اربوں ڈالر خرچ کرکے انتھا پسند تکفیری گروہوں کی حوصلہ افزائي کرتا ہے اور اس طرح سے ہمیشہ سنی شیعہ اختلافات پھیلاتا رہا ہے ،حال ہی میں آل سعود سے وابستہ "فقہاء البترول"کے گروہ سے اڑتیس ملاؤں نے جن میں ام القری یونیورسٹی میں شعبہ عقائد کے سابق سربراہ شیخ صفربن عبدالرحمن حوالی اور محمد بن سعود یونیورسٹی کے نائب سربراہ شیخ ناصر بن سلیمان بن عمر بھی شامل ہیں اختلاف پھیلانے کی اسی سازش کے تحت جاری کیا گیا ہے ۔

 

جناب خسروشاہی نے کہا کہ سعودی عرب کے ان شاہانہ اقدامات کا آخری نمونہ سعودی بادشاہ کا عراق کی جمعیت علماء المسلمین کے سربراہ حارث الضاری سے ملاقات کرنا تھا اس ملاقات کے بعد حارث الضاری نے جہاں جہاں بھی گفتگو کی خاص طورسے آل سعود کے پیسوں سے چلنے والے ٹیلی ویژن چینلوں میں کہا کہ ایران ،عراق میں فرقہ واریت کا ذمہ دار ہے اس کے بعد انہوں نے آل سعود کے پیسے سے استانبول میں عراق کے اھل سنت کے دفاع کے نام سے کانفرنس کرائي جس میں افریقی اور ایشیائي ملکوں سے اھل سنت کی بزرگ شخصیتوں نے شرکت کی اور مسلمانوں کے اتحاد کے خلاف نیزتفرقہ انگیزبیان جاری کیا ۔

ویٹیکن میں ایران کے سابق سفیرخسروشاہی نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ دنوں قبل برطانیہ کے اخبار فائيننشیل ٹائمز نے باضابطہ اعلان کیا تھا کہ موثق ذرایع کے مطابق عراق میں قتل عام اور ٹارگٹ کلنگ کے لۓ پیسہ آل سعود کے وھابی عناصر فراہم کررہے ہیں ۔

جناب خسروشاہی نے اس سوال کے جواب

میں کہ علاقے میں پائدارامن و استحکام قائم کرنےکی کونسی راہ موثر ہے کہا کہ میری نظر میں علاقے میں پائدار امن قائم کرنے کی بہترین روش امریکہ اور برطانیہ کے تفرقہ انگيز اقدامات کامقابلہ کرنا اور ساری دنیا میں فعال سفارتکاری سے کام لینا ہے تاکہ عالمی راے عامہ بالخصوص عرب اوراسلامی ملکوں کے عوام کو دشمن کی سازشوں اور ان کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا جا سکے ،انہوں نے کہا کہ علاقے میں پائدارامن حالات کا صحیح روش پر جائزہ لینے غیرضروری نعروں سے پرھیز کرنے اعتمادسازی کے لۓ عملی اقدامات کرنے نیزسیاسی تحرک سے ہی قائم ہو سکتا ہے ،انہوں نے کہا کہ دشمن اس حد تک اسلامی ملکوں کے عوام حتی کہ علماء کے درمیان شک وشبہے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گيا ہے کہ شیخ یوسف قرضاوی جیسی عالم اسلام کی بزرگ شخصیت بھی انڈونیشیاء سے مدد طلب کرتی دکھائي دیتی ہےکہ ایران کو عراق میں قتل عام سے روکے ،یہ درحقیقت وہی سامراج اور اس کے تکفیری ،بعثی اور وھابی آلہ کاروں کا پروپگينڈاہے جس نے اتنا گہرااثر چھوڑا ہےکہ قرضاوی جیسے عالم دین بھی ایران کو عراق کی صورتحال کا ذمہ دار سمجھنے لگے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہےکہ عراق میں زیادہ تر شیعہ علاقوں میں وھابی اور بعثی عناصر کے ہاتھوں قتل عام کے واقعات سامنے آ رہے ہیں اب آپ فیصلہ کریں ایران پر کس وجہ سے الزامات لگاۓ جا رہے ہیں ؟

 

جناب خسروشاہی نے آخرمیں کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علماءاسلام اور عرب و اسلامی ملکوں کے عوام کو یہ بتایا جاۓ کہ عراق کی بدامنی میں ایران نہیں بلکہ امریکہ برطانیہ اور ان کے رجعت پسند عرب آلہ کار اور اسرائيلی ملوث ہیں جو اھل سنت کی مدد کرنے کے بہانے دھشت گردوں کی مدد کرتے ہیں ۔

 

     https://taghrib.ir


متعلقہ تحریریں:

مھناز رؤفی کا انٹرویو