• صارفین کی تعداد :
  • 4145
  • 10/27/2008
  • تاريخ :

اصلاح کی ضرورت ہے

اصلاح کا واقعی مطلب کیا هو سکتا ہے

انسان کی زندگی کو دنیا کی ارزاں ترین شے سمجھ لیا گیا ہے ہر روز دھماکے، دہشت گردی کی خبریں تواتر سے آنا ایک معمول بن گیا ہے۔2002ء سے ہمارا ملک جس قسم کی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس میں سب سے خوفناک خود کش دھماکے ہوئے ہیں جس نے بے شمار انسانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ حملے مسلمان مسلمانوں کے خلاف کرتے ہیں اگرچہ اس بات پر یقین کرنے کو دل نہیں کرتا کیونکہ جن لوگوں سے ان دھماکوں کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خود کو بہترین مسلمان کہتے ہیں اور دھماکہ کرنے والا خود کو شہادت کے درجے پر فائز سمجھتا ہے حالانکہ دنیا کے کسی بھی معاشرے یا مذہب میں اگر خود کشی ناپسندیدہ ہے تو اسلام میں حرام ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے چاہے اسے جو بھی کرے اور جس نیت سے بھی کرے۔

 

خود کشی عین خدا کا عذاب ہے۔ دراصل زندگی اور موت کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اوراس میں انسان کی مداخلت کو کسی قیمت پر پسند نہیں کرتا،قضا و قدر کا مالک وہ ہے اس نے انسان کو محدود اختیارات کے ساتھ زمین پر بھیجا ہے جب ایک انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کرتا ہے تو اس نے گویا خدا کے اختیار میں مداخلت کی اور اس نے خود کو مار دیا تو اس نے نہ صرف خدا کی ناشکری کی بلکہ اس کے اختیار کو چیلنج کیا کہ اے خدا اگر تو نے زندگی دی ہے تو مجھے نہیں چاہئے اور تو دیکھ کہ میں نے اسے ختم کر دیا ہے۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان حالات کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کشی کر لیتے ہیں اور مظلوم سمجھ لئے جاتے ہیں۔ خود کشی کی وجوہات میں ذہنی تناؤ، دباؤ، تنہائی، بے وفائی، برے مالی حالات، بیماری اور معذوری وغیرہ کو اہم سمجھا جاتا ہے اور آج کل خود کش حملوں میں استعمال ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں یہی باور کیا جاتا ہے کہ یہ حالات کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے ہیں جن کو مذہب کے نام پر بلیک میل کر لیا جاتا ہے ان کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ان حالات سے دنیا میں نجات پا لیں گے بلکہ جنت بھی کما لیں گے۔

 

 جو لوگ بھی ان نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں اور جو بھی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں اللہ کے حدود کو توڑتے ہیں اسلام میں خود کشی قطعاً حرام ہے اس کے لئے کسی بھی توجیہہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی ۔ حضرت ایوب  نے برسہا برس بیماری کی شدت میں گزارے لیکن صبر اور اس یقین کے ساتھ کہ جس خدا نے انہیں بیمار کیا وہی شفا دے گا اور اسی صبر کے بدلے میں شفا پائی۔

 

جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن اس میں بھی اللہ نے حدود کی پابندی کرنے کا حکم دیا ہے جہاد کے حکم کو اس حکم اور تاکید کے ساتھ نازل کیا کہ جو لوگ تم سے لڑتے ہیں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ خود کشی ایک ایسا فعل ہے جس کی اسلام نے بہر صورت ممانعت فرمائی ہے اور ایسا کرنے والے کو سخت سزا کی وعید سنائی ہے اور حدیث نبوی کی رو سے جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا دوزخ میں اسی طریقے سے مارا جائے گا چنانچہ ارشاد نبوی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )  ہے ”جس نے خود کو لوہے کے ٹکڑے سے مارا اسے دوزخ میں اسی لوہے کے ٹکڑے سے مارا جائے گا۔ اب خدا جانے ہمارے ملک کے ان نوجوانوں اور معصوم بچوں کو کون دین، مذہب، خدا اور جہاد کے نام پر خود کشی پر آمادہ کر رہا ہے انہیں دیندار بننے سے پہلے اسلام کا مطالعہ ضرور کر لینا چاہئے اور اگر وہ یہ سب جانتے ہیں تو وہ تہرا گناہ کما رہے ہیں ایک اپنے لوگوں کو دین سے گمراہ کرنے کا اور دوسرا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کا اور تیسرا خود کشی اور قتل کا اور یوں وہ اسلام کو وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں

 

جو شاید غیر مسلم بھی نہ پہنچا سکیں اگرچہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ یہ سب کچھ کروانے میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے آلہٴ کار بننے والے خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے ہر فعل کو عین اسلام سمجھتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں۔ اکثر یہ سننے میں آتا ہے جو کہ ظاہراً درست بھی ہے کہ ان حملہ آوروں کو روکنا ممکن نہیں کیونکہ یہ جان سے گزر جانے والے لوگ ہیں یہ بات درست ہے کہ واقعی جان سے گزر جانے والے لوگ ہیں لیکن یہ وہ کم علم یا بے علم لوگ ہیں جو اسلام کی اصل روح اور تعلیمات سے قطعاً واقف نہیں اور اسی لئے ان کو دین کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ ہمارے علمائے کرام، خطیب حضرات اور مدارس کی ذمہ داری ہے

 

کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اصل حقیقت کیا ہے ہر کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دینا اور جہاد کا اعلان کر دینا تو آسان ہے لیکن تمام عوامل کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے اگر اسلام کو صحیح معنوں میں پیش کیا جائے تو اس سے بہتر اور سچا مذہب دنیا میں نہیں ہے ۔ اسلام غیر ملکی شہریوں کی جان و مال کا محافظ بھی حکومت اور مسلمانوں کو قرار دیتا ہے۔ خود کش حملوں کو روکنا ممکن ہے اگر اس کام کو مشن سمجھ کر کیا جائے اور جتنی محنت خود کشی پر آمادہ کرنے والے کرتے ہیں اتنی ہی یا اس سے کچھ کم محنت معاشرے کے پڑھے لکھے اور دین کو سمجھنے والے افراد اور خاص کر ہمارا میڈیا کر لے اور اس عزم کے ساتھ کریں کہ لوگوں کا اللہ پر یقین پیدا کیا جائے اس بات کا یقین کہ ہمارے مسائل کا حل خدا کے لئے مشکل نہیں اور وہ اسے پر امن طریقے سے حل کرے گا اگر ہم اس کی لئے پر امن کوشش کریں گے۔

                                            تحریر:   (نغمہ حبیب۔ کراچی) روزنامہ جنگ