ابتلاء و آزمائش اور اس کی حکمتیں
فکر آخرت :
اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اسکی طرف وسیلہ تلاش کرو ، اسی پر توکل کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو ، اس پر حسن ظن قائم رکھو اور خوف و امید کے ساتھ اسے ہی پکارو اور قیامت کے دن اسکے سامنے کھڑے ھونے اور جوابدہی کو تصور میں لاؤ وہ دن جو کہ بچوں کو بھی بوڑھا کر دے گا ـ
ارشاد الہی ہے :
{ اس دن بھائی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا ، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے ، ہر شخص اس روز ایک فکر میں ھو گا جو اسے ( مصروفیت کیلۓ ) بس کرے گا ـ } ( عبس : 34 ــ 37 )
بلائيں اور فکری پراگندگی
مسلمانو ! جب بلائيں نازل ھوتی ہیں اور مصائب و مشکلات ہر طرف سے گھیرا ڈال لیتے ہیں تو کچھ لوگوں کے فہم میں اضطراب آ جاتا ہے ، ٹھہراؤ نہیں رہتا ، انکی عقلیں ماند پڑ جاتی ہیں اور خواب بکھر کر رہ جاتے ہیں ـ ایسے حالات میں وہ لوگ اس حق سے بھی دست بردار ھونے لگتے ہیں جسے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ انہی کا حق ہے اور کئ صحیح امور کو بھی بھول بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ ان سے جہالت میں نہیں ھوتے ، ایسے میں حیرت و پریشانی واقع ھو جاتی ہے اور شرک جوش مارنے لگتا ہے ، قیل و قال اور اول فول باتوں کا بازار گرم ھو جاتا ہے اور حقائق و اصول چھوٹ جاتے ہیں ، ظن و گمان کی پیروی کی جاتی ہے اور من چاہی اشیاء اور خواہشات نفس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور امور و معاملات کے فیصلے بغیر علم و ھدایت اور بغیر کسی روشن کتاب و دلیل کے کۓ جانے لگتے ہیں ـ
ابتلاء و آزمائش
غفلت کے زور و شور میں انسان یہ بھی بھول جاتا ہے کہ آزمائشوں کی سنت الہی اسکی مخلوقات میں جاری ہے اور انہی کے ذریعے اسکی قضاء و قدر کے فیصلے بھی ان میں نافذ ھوتے رہتے ہیں ، یہ انسان ان باتوں کو پتہ نہیں کیسے بھول جاتا ہے جبکہ وہ صبح و شام اپنے رب کی کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہتا ہے اور اس میں اس حقیقت کا بڑے واضح و غیر مبہم انداز میں ذکر آیا ہے اور اتنا واضح ذکر ہے کہ مزید اس سے زیادہ کی وضاحت کی ہی نہیں جا سکتی ـ ارشاد الہی ہے :
" الف ، لام ، میم ، کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف ) یہ کہنے سے کہ ھم ایمان لے آۓ ، وہ چھوڑ دیۓ جائيں گے ؟ اور انکی آزمائش نہیں کی جائيگی ـ اور جو لوگ ان سے پہلے ھو گزرے ہیں ھم نے انھیں آزمایا تھا ( اور انھیں بھی آزمائيں گے ) سو اللہ ضرور انھیں معلوم کر لے گا جو ( اپنے ایمان میں ) سچے ہیں اور انھیں بھی ( جان لے گا ) جو کہ جھوٹے ہیں ـ } ( العنکبوت : 1 ــ 3 )
ایک دوسری جگہ ارشاد الہی ہے :
{ ( اے اھل ایمان ) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمائش کی جائیگی ، اور تم اھل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی اذیت ناک باتیں سنو گے تو اگر صبر اور پرہیز گاری کرتے رھو گے ـ تو یہ بڑی ھمت کے کام ہیں ـ ( آل عمران : 186 )
ایک تیسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
" اور ھم کسی قدر خوف ، بھوک اور مال و جانوں اور پھلوں کے نقصان سے تمھاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو ( رضاء الہی کی ) بشارت سنا دیں ، جن لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ھوتی ہے تو کہتے ہیں کہ :
" ھم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی مہربانی اور رحمت اور یہی سیدھے راستے پر ہیں " ( البقرہ : 155 ــ157 )
اور قرآن کریم میں ایک جگہ اسماء حسنی اور مقدس ناموں والی ذات نے فریایا ہے :
{ اور ھم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں مجاھدین ( فی سبیل اللہ لڑنے والے ) اور صابر ( ثابت قدم رہنے والے ہیں ) انھیں معلوم کریں اور تمھارے حالات جانچ لیں ـ } ( محمد : 30 )
انبیاء کی آزمائش
اللہ کے بندو ! یہ آزمائش و امتحان اللہ تعالی کی عام سنت و طریقہ ہے اس سے تو اس نے کسی نبی کو بھی مستثنی و الگ نہیں کیا اگر چہ انبیاء کرام بڑے اعلی مقام و مرتبہ کے مالک ، بڑی قدر و منزلت والے اور اللہ کے یہاں بڑے معزز و مکرم ھوتے ہیں بلکہ اللہ نے ان کا امتحان تو دوسروں سے بھی کڑا لیا اور انھیں عام لوگوں کی نسبت زیادہ سختی سے آزمایا جیسا کہ ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں صحیح سند سے مروی ہے ـ کہ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا، سب سے زیادہ کن لوگوں کو آزمایا گیا ؟
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{ سب سے زیادہ آزمائش و امتحان سے انبیاء کرام کو دوچار کیا گیا ، پھر انبیاء سے فضیلت میں کمتر درجہ کے لوگ اور ان سے کمتر درجہ کے لوگ پھر ہر شخص کو اس کے دین ( سے تمسک ) کی مقدار سے آزمایا جاتا ہے ـ اگر وہ دینداری میں بڑا سخت ھو تو اسے بہت سخت آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ، اور اگر اس کے دین میں رقت و کمزوری ھو گی تو دین کے معیار کے مطابق اسے آزمایا جاۓ گا ـ اور بندہ مسلسل آزمائشوں سے دوچار رہتا ہے حتی کہ وہ بندے کو ( گناھوں سے دھو کر ) ایسے کر دیتی ہیں کہ وہ اس حال میں زمین پر چل رہا ھوتا ہے کہ اسکے ذمے کسی خطا و گناہ کا کوئی بوجھ نہیں ھوتا ـ )
( صحیح الجامع 1 / 231 ، الصحیحہ :144 )
نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ابتلاء
خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جس ابتلاء و آزمائش کے جس دور سے گزرے وہ سیرت کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص بخوبی جانتا ہے ـ یہی کیا کم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہی قوم سے کیا کیا اذیتیں اٹھائیں ، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جٹھلایا، مذاق اڑایا ، لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ پر آنے سے روکا اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا وطن مالوف (مکہ مکرمہ ) اور اسکی سرزمین (حرم مبارک) کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا ، اور آپ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ، لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دشمن بنانے کی ہر ممکن کوششیں کیں اور سب کو اس بات پر جمع کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مختلف قبائل کے لوگ مل کر ایک ہی وار میں ختم کر دیں ـ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دار ہجرت ، پائیہ تخت یا دار الحکومت ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اھل و عیال اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام کی جاۓ رہائش والے شہر مدینہ منورہ پر حملہ آور ھو گۓ ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین اسلام کے خاتمہ اور اسکے استیصال و بیخ کنی کے درپے ھو گۓ اور مدینہ کے دوسرے مکینوں یہود و منافقین کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ابھارا اور دشمنی پر اکسایا ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف سازشیں کیں ، بدترین چالیں چلیں اور مکر و فریب سے کام لیا اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جو عھد و معاھدہ کیا تھا : اسے توڑا ، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقض عھد کر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جنگ کرنے کیلۓ مشرکین مکہ کے ساتھ انھوں نے اتحاد کر لیا ـ اور جب وہ سب لوگ میدان کارزار میں اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ھو سکے تو اس مایوسی کے عالم میں انھوں نے دھوکے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی بھر پور سازشیں اور کوششیں کیں ـ
نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سے پہلے گزرے ھوۓ انبیاء کرام کی طرح ہی ابتلاء و مصائب میں ثابت قدم رہے ، آزمائشوں میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا صحیح طور پر حق ادا کر دیا حتی کہ اللہ تعالی کی طرف سے مدد و نصرت آ گئ اور فتوحات کا سلسلہ شروع ھو گیا ،لوگوں نے جوق در جوق اور فوج در فوج اسلام میں داخل ھونا شروع کر دیا ـ لوگوں کے دلوں کو انوار ھدایت سے منور کر دیا ـ اور انکے دلوں میں ایمان کی بشاشت و حلاوت گھر کر گئ ، تب پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم راضی برضاء ، خوش دلی اور ٹھنڈی آنکھوں کے ساتھ اپنے خالق و مالک اور پروردگار کی طرف روانہ ھو گۓ ، اور اپنی امت کے پاس دو چیزیں چھوڑ گۓ کہ اگر انھوں نے انھیں پکڑے رکھا تو کبھی بھی گمراہ نہ ھونگے : کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم جیسا کہ ایک صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے ـ ( دیکھیۓ صحیح الجامع 1 / 566 ، الصحیحہ : 1761 ، مشکاة : 187 )
ابتلاء و آزمائش کی حکمتیں :
اللہ کے بندو ! نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے انبیاء کرام اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا منھج صبر و رضاء کو اختیار کرنا اور مصائب کو جھیلنا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو کاروں کا بھی اسی شاھراہ پر گامزن ھو جانا کوئی تعجب خیز امر نہیں تھا ـ کیونکہ وہ لوگ یقین کامل رکھتے تھے کہ اللہ تعالی نے اپنے کسی بندوں پر یہ چیز ( آزمائش ) انھیں قتل و ھلاک کرنے کیلۓ وضع نہیں فرمائی اور نہ ہی انھیں پریشان و تنگ کرنے کیلۓ یہ سلسلہ آزمائش شروع فرمایا ہے کہ یہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ھو جاۓ اور یہ دنیا انکے لۓ بگڑ جاۓ اور آخرت میں بھی انکا انجام خراب ھو ـ ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالی نے ابتلاء و آزمائش اسلۓ بنائی تاکہ اسکی عظیم حکمتیں سامنے آئیں ، اسکے فوائد جلیلہ حاصل ھوں اسکے خوبصورت اغراض و مقاصد ہاتھ لگیں اور وہ اس قدر ہیں کہ جنکا احاطہ اور شمار کرنا ناممکن و مشکل ہے ـ
امتحان صبر :
ان ابتلاؤں آزمائش اور امتحانوں کی عظیم حکمتوں فوائد جلیلہ اور اغراض و مقاصد جمیلہ میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ اللہ اپنے بندے کا ان کے ذریعے پیمانہ صبر آزماۓ اور دیکھے کہ وہ اسکے اولیاء میں سے اور اسکی فلاح و نجات پانے والی جماعت کے افراد میں سے ہے یا نہیں ـ اگر وہ مصائب میں ثابت قدم رہے ، بلاؤں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ، تو اللہ اسے اپنا برگزیدہ بندہ اور منتخب و چنا ھوا ولی و دوست بنا لیتا ہے اور اسے عزت و اکرام کی خلعتیں عطا کرتا ہے ، اسے فضل و کرم کا لباس پہناتا اجر و ثواب کے حلے اوڑھاتا ، قبولیت بارگاہ الہی کے پیردوں میں ڈھانپتا اور اسکا خاتمہ اپنی رضاء کے ساتھ کرتا ہے اور اپنے اولیاء اور اپنی جماعت کے افراد کو اسکی خدمت و مدد پر لگاتا اور اگر آزمائش میں ڈالے جاتے ہی وہ منہ پھیر جاۓ اور ایڑیوں کے بل پلٹ جاۓ تو اسے دھتکار کر دور کر دیا دیتا ہے ـ اللہ اپنی رضاء و خوشنودی اس سے روک لیتا ہے اور اس پر اپنا غضب و غصہ لکھ لیتا ہے ، اور اسکے بلاؤں کے اسباب میں اضافہ کر جاتا ہے ـ شقاوت و بدبختی کے لشکر اسے ہرا دیتے ہیں ـ وقتی طور پر وہ شخص نہ بلاؤں کے اسباب میں اضافے کو محسوس کر سکتا ہے اور نہ ہی شقاوت کے لشکروں کے ہاتھوں اسے اپنی شکست ہی نظر آتی ہے ، لیکن بعد میں جا کر اسے پتہ ملے گا کہ ایک مصیبت (جس پر صبر و استقلال نہ دکھایا ) وہ اسکے لۓ کئ مصائب و مشکلات کا پیش خیمہ بن گئ ہے ـ اور ان دونوں مقامات کے مابین دو ہی منزلیں ہیں ایک ہے منزل صبر اور دوسری ہے منزل غضب و ناراضگی ــــ جیسا کہ امام علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے ـــ " ان دونوں کے مابین صرف گھڑی بھر کا صبر کرنا یا پھر اس گھڑی میں دل کو رخصت ہی کر دینا ہے ـ
اور مصیبت تو لازمی بات ہے کہ دونوں سے کٹ ہی جاۓ گی ، لیکن اس صابر و ثابت سے کٹے گی تو یہ طرح طرح کے انعامات ، عزت و کرامت اور خیرات و برکات پاۓ گا اور دوسرے بے صبرے سے کٹے گی تو وہ حرمان نصیبی اور ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں حاصل نہ کر سکے گا ، کیونکہ یہ سب اس غالب اور علم و حکمت والے کی تقدیر اور اسکے ( مقررکردہ ) اندازے ہیں اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے ، اور اللہ تو بہت ہی بڑے فضل و کرم والا ہے ـ } ( ازفادات : علام ابن قیم )
غرض صبر کرنے پر جو انعام و اکرام حاصل ھوتے ہیں وہ سب سے بہترین عطاء ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{کوئی شخص ایسی کوئی عطا اور انعام و اکرام نہیں دیا گیا جو صبر سے زیادہ وسیع تر اور بہتر ھو ـ }
عبودیت و بندگی :
برادران گرامی ! ابتلاء و آزمائش کی حکمتوں میں سے ہی ایک دوسری حکمت اللہ تعالی کیلۓ بندے میں عبودیت و بندگی کی صفت پیدا کرنا ہے ـ اللہ تعالی اپنے بندے کو خوشی و غم اور نعمت و بلاء ہر حال میں ایسی تربیت دیتا ہے کہ اس سے عبودیت و بندگی ظاھر ھو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی طور پر بندہ وہی ہے جو ہر حال میں اللہ کی بندگی اور اس کے لۓ اپنی عبودیت پر قائم رہے ، رہا وہ شخص جو صرف نعمت و خوشی کی حالت میں ہی بندگی کرتا ہے اور عبودیت پر قائم رہتا ہے وہ شخص ایسا ہے جو کہ کنارے پر عبادت کرتا ہے اور شک و قلق و اضطراب میں مبتلا ھوتا ہے اور دین کے معاملہ میں متزلزل اور ڈولتا رہتا ہے یا پھر دوسرے لفظوں میں کنارے پر عبادت کرنے والے کو یوں کہہ لیں کہ وہ ایک ہی حالت میں عبودیت و بندگی پر قائم رہتا ہے ـ اگر اسے خیر و بھلائی پہنچے تو مطمئن ھو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی فتنہ و مصیبت پہنچے تو منہ پھیر جاتا ہے ـ یہ شخص اللہ کے ان بندوں میں سے نہیں جنھیں اللہ تعالی نے اپنی عبودیت و بندگی کے لۓ اختیار کیا ہے اور انھیں شرف عبودیت سے نواز رکھا ہے ، اور انھیں حسن انجام کا وعدہ دیا ہے ـ
صیقل قلوب اور کسوٹی ایمان
اے اللہ کے بندو ! یہ ابتلاء و آزمائش دلوں کو صیقل کرنے والی ، ایمان کی کسوٹی ، اخلاص کی نشانی ، جذبہ و تسلیم و رضاء کی دلیل اور اللہ کے احکام پر گردن جھکا لینے کی گواہ ھوتی ہے ، یہ اس مفید دوا کی طرح ھوتی ہے جسے کوئی رحم دل ، مخلص اور بیمار کی مصلحت و فائدے کو جاننے والا طبیب ماھر اس بیمار کے لۓ تجویز کرتا ہے ، اور عقلمند مریض پر واجب ہے کہ وہ اس کے لذت و مزہ یا تلخی و ترشی کا خیال کۓ بغیر گھونٹ بھر لے اور شکوہ و شکایت کرتے ھوۓ اس دوا کو اگل نہ دے تاکہ کہیں اسکا نفع ضرر میں نہ بدل جاۓ ـ
اور اللہ تعالی نے فرمایا :
{ عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائیاں پیدا کر دے ـ } (النساء : 1 )
مسلمان پر واجب ہے کہ بلاء کے نازل ھونے ، مصائب و مشکلات کے واقع ھونے اور کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آجانے پر ثابت قدم رہے ، ھوا چاہے کتنی تیز ہی کیوں نہ ھو اور آگ کی لپیٹیں چاہے کتنی بلند کیوں نہ اٹھ رہی ھوں اسکے پاۓ استقلال و ثبات میں تزلزل و ڈگمگاہٹ نہ آنے پاۓ
حصول ثبات کے ذرائع رجوع الی اللہ
برادران محترم ! اس ثبات و استقلال کے حصول کے بعض اسباب ہیں جن کی بدولت مسلمان کے پاؤں ایمان پر جمے رہتے ہیں اور اسکے لۓ اس کے ساتھ راہیں ھموار کر دیتے ہیں ـ ان اسباب میں سے ہی سچے دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنا ، جھکنا اور اسی سے التجاء کرنا ، اسی پر بھرپور توکل و اعتماد کرنا ، انتہائی فروتنی و انکساری بلکہ خاکساری اختیار کرنا ، صرف اسی کی طرف مکمل طور پر انابت رجوع کرنا ، گناھوں کو ترک کرکے خطاؤں سے دور ھو کر توبہء صادقہ و نصوحہ کرنا ـ
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں " کوئی بلاء مصیبت نہیں اترتی سواۓ کسی نہ کسی گناہ کے نتیجہ میں اور توبہ کے کۓ بغیر وہ رفع نہیں ھوتی ـ "
حسن ظن :
ثبات و استقلال پیدا کرنے والے اسباب و ذرائع میں سے ہی اپنے دینی بھائیوں اورعام مسلمانوں کے ساتھ بالعموم اور اولیاء امور ( حکام و امراء ) اور اھل علم و فضل کے ساتھ بالخصوص حسن ظن رکھے اور یہ اس طرح کہ انکے اقوال و افعال کو اچھے معانی و مقاصد پر محمول کرے ـ ایسے ہی ان لوگوں کی طرف رجوع کرنا جو علم میں رسوخ و گہرائی اور ادراک رکھتے ہیں یہ بھی اسباب ثبات میں سے ہی ہے ـ وہ مشکل معاملہ کو حل اور واضح کر دیں گے اور جس بات کا علم ہی نہیں وہ بھی ان سے پوچھی جاۓ ـ اسی طرح ہر شخص کیلۓ ضروری ہے کہ وہ اپنی راۓ پر ہی نہ اڑا رہے کہ اسے صرف وہی اچھی لگے اور احکام صادر کرنے میں جلدبازی نہ کرے اور نہ ہی مختلف امور میں اختیار کۓ گۓ مواقف کو اپنی ہی راۓ سے تعبیریں اور تاویلیں نہ دیتا جاۓ اور اس معاملہ میں عجلت پسندی کا مظاھر نہ کرے ـ نہ ہی مختلف موضوعات و مصادر کے تجزیوں سے فورا متاثر ھو خصوصا جبکہ وہ تجزیہ کسی ایسے شخص کی طرف سے صادر ھو جس کے کمال عقل ، صحت اعتقاد ، سلامتی مقاصد ، صدق نصیحت و خیر و خواہی اور صفائی باطن کا بھی پتہ نہ ھو ـ اور پھر غالب و عام طور پر یہ تجزیۓ اور تبصرے اپنی اپنی مصلحتوں ، مطمع نظر اور خواہشات نفس کے تحت کۓ جاتے ہیں لھذا ان میں جھوٹ اور خطا و ظلم کو پھیلایا جاتا ہے ـ
ترک قیل و قال :
اسی طرح قیل و قال یا بکثرت گفتگو کو ترک کرنا بھی واجب ہے اور اسے تو اللہ تعالی نے بھی اپنے بندوں کے لۓ ناپسند فرمایا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں ھمیں اس کی خبر دی ہے چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{بیشک اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی ، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ، کسی کو کچھ دینا نہیں ( دوسروں کا حق مار لینا ) اور صرف لینے کا ہی رویہ اختیار کۓ رکھنا حرام ہے ، اور اللہ تعالی تمھارے لۓ بکثرت باتوں ( قیل و قال ) بکثرت سوال کرنے اور مال کو ضائع کرنے کو بھی ناپسند کیا ہے ـ } ( بخاری ، مسلم ــ متفق علیہ )
سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتے جانا بھی انہی امور میں سے ہے جنھیں اللہ تعالی اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پسند نہیں فرماتے صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس فعل پر سخت ڈانٹ پلائی ہے ، چنانچہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا :
{ کسی شخص کے جھوٹا ھونے کے لۓ یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کرتا پھرے ـ } ( صحیح مسلم ) جبکہ سنن ابی داؤد میں صحیح سند کے ساتھ ہی مروی اس ارشاد نبوی کے الفاظ یہ ہیں :
{ کسی آدمی کو یہی گناہ کافی ہےکہ وہ ہرسنی سنائی بات ( بلاتحقیق ) بیان کرتا پھرے ـ } ( ابوداؤد بسند صحیح )
دورے پر فتن میں ثبات و استقلال
یوں تو اس منھج رشید و طریق سدید اور صحیح طرزعمل کااختیار کرنا ہر مسلمان کیلۓ ہر وقت ضروری ہے ، البتہ سخت اوقات ، مصائب و مشکلات اور پرفتن و پر آشوب حالات میں اس منھج کا اختیار کرنا اور بھی واجب اور زیادہ مؤکد ھو جاتا ہے اور اللہ تعالی نے سچ ہی ارشاد فرمایا ہے ـ
{ کیا تم یہ خیال کرتے ھو کہ ( یونہی ) جنت میں داخل ھو جاؤ گے ؟ اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی ( مشکلیں) تو پیش نہیں آئيں ، انھیں ( بڑی بڑی ) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ( مصیبتوں میں ) ھلا کر رکھ دیۓ گۓ یہاں تک کہ رسول اور وہ مومن لوگ جو انکے ساتھ تھے ، سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد و نصرت کب آۓ گی ؟
دیکھو ! اللہ کی مدد عنقریب آیا ہی چاہتی ہے ـ } ( البقرہ : 214 )
اللہ والو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس بات کا یقین رکھو کہ تم اللہ سے ملنے والے ھو ، اسے اپنے تمام پوشیدہ و علانیہ اعمال و افعال کا نگران و دیکھنے والا سمجھو اور اسی پر توکل و بھروسہ کرو اور اسی کے لۓ مخلص رھو اور توحید کے عقیدہ پر قائم رھو کیونکہ بندے کا اپنے رب کی توحید کو ماننا امن و سلامتی کا رکھوالا ، فوز و فلاح کا ضامن ، سعادت دارین کی اصل بنیاد ، دخول جنت کا سبب اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے ـ
خیر الحدیث کتاب اللہ :
اور یہ بات بھی آپ کے علم میں رہے کہ بہترین بات ( خیر الحدیث ) تو اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے ، اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے اور برے امور وہ ہیں جو (دین میں ) نۓ نۓ ایجاد کۓ گۓ ھوں اور ہر ایجاد نو بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہےـ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ پیوستہ رہیں ،
بیشک { جماعت پر اللہ کا ہاتھ ھوتا ہے } اور جو جماعت سے نکل گیا وہ جہنم میں جا پہنچا ـــ ( ترمذی ـ مستدرک حاکم ، صحیح الجامع 2/ 1340 )
و صل اللھم علی نبینا محمد و آلہ و آصحابہ آجمعین ـ
{سبحان ربك رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین و الحمد للہ رب العالمین }