• صارفین کی تعداد :
  • 1790
  • 7/20/2008
  • تاريخ :

بین المذاہب مکالمے کے لیے اقوام متحدہ کا اجلاس طلب کیا جائے ، کانفرنس کا اعلامیہ

ملک عبدالله

میڈرڈ (جنگ نیوز) سعودی عرب کے فرماں رواں خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کی دعوت پر رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام اسپین کے شہر میڈرڈ میں بین الاقوامی عالم اسلامی کے زیر اہتمام اسپین کے شہر میڈرڈ میں بین الاقوامی کانفرنس برائے بین المذاہب مکالمہ اس مشترکہ اعلامیہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ ”باہمی اختلافات کے خاتمے، مذہبی رواداری کے قیام اور ایک دوسرے کے ادیان کے احترام کو ایک بین الاقوامی چارٹر بنانے کے لیے شاہ عبداللہ سے گذارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے بین المذاہب مکالمے کا اگلا اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بلانے کی درخواست کریں تاکہ عالمی چارٹر برائے عالمی امن پیش کیا جا سکے“۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ المحسن الترکی اور متحدہ عرب امارات کے صدارتی مشیر ڈاکٹر عزالدین ابراہیم المصطفیٰ نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ المحسن الترکی نے کہا کہ ہم تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ اختلافات کو ہوا دے کر مفادات کے حصول کا سلسلہ جاری رہا تو پھر ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

 

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہر سطح پر مکالمے کے رحجان کو فروغ دے کر شدت پسندی اور انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا اور اس طرح کی کانفرنسیں تسلسل کے ساتھ منعقد کی جائیں گی جن میں تعلیم، عدل و انصاف، بھوک اور غربت جیسے مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ 10نکاتی اعلامیے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو دنیا کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ دنیا نہ صرف دہشت گردی کی صحیح تشریح کرے بلکہ اُن مسائل کو ختم اور ایسی چنگاریوں کو بجھانے کی بھی کوشش کرے جن کے سبب دہشت گردانہ فکر اور شدت پسندانہ سوچ پروان چڑھتی ہے ۔

 

 ڈاکٹر عبداللہ المحسن الترکی نے کہا کہ اس سلسلے میں سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی تجویز بھی زیرغور ہے اور انشاء اللہ باہمی یگانگت سے اِن مسائل کو حل کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ باقاعدہ ایک ایسی ٹیم تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے جن میں معروف اسکالرز اور محققین شامل ہوں گے اور جن کی تجاویز کی روشنی میں مذاہب کے درمیان اختلافات کو مکالمے کے ذریعے ختم کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے مندوبین نے خاندانی نظام کی تباہی، نئی نسل میں فحاشی و عریانی کے بڑھتے ہوئے رحجان اور آہستہ آہستہ دم توڑتی اخلاقی اقدار کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے میڈیا پروگرامز اور بھرپور تعلیمی و ثقافتی سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا اب یہاں سے سفر کا آغاز ہوگیا ہے ، شاہ عبداللہ نے جو کچھ کرنا تھا کردکھایا اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم بین الاقوامی اتحاد کے خواب کو ایک سچی تعبیر دیں۔

 

 انہوں نے کہا اقوام متحدہ کواس میں شامل کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ رابطہ عالم اسلامی ناکام ہوگئی بلکہ مکالمے کی اہمیت کو اقوام عالم کی نظر میں واحد حل کی صورت میں اجاگر کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے مختلف سیشنز میں جو مقالے پیش کیے گئے اور جس رواداری اور برداشت کا مظاہر کیا گیا اُس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا کو اب بھی جنگوں کے خطرات سے بچایا جاسکتا ہے کیونکہ اگر اب جنگ ہوئی تو فاتح اور مفتوح دونوں ہی صفحہٴ ہستی سے مٹ جائیں گے، اب اگر ہم دین اور مذہب کے نام پر لڑے تو یہ دنیا تباہ وبرباد ہوجائے گی۔

 

ڈاکٹر عبداللہ المحسن الترکی نے کہا بعض اسلامی اسکالرز کی نگاہ میں ہندوؤں، بدھوؤں ، سکھوں اور دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ بھی وہی معاملات اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اہل کتاب کے ساتھ اختیار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے دیگر مذاہب کے درمیان مکالمے کے رحجان کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے درمیان بین المذاہب اور بین الثقافتی اجلاسوں کا تواتر سے انعقاد کیا جائے گا اور اس سلسلے میں ہم میڈیا سے گذارش کریں گے کہ وہ ہمارا بھرپور ساتھ دے، انہوں نے کہا کہ مکالمے کی اس دعوت کو کامیاب بنانے میں مندوبین نے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز، اسپین کے بادشاہ جون کارلوس(اول) اور وزیر اعظم یوش لوئس زپاٹیریو کی کوششوں اور کاوشوں کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔

 

انہوں نے کہا کہ شرکا نے اپنے مقالوں میں اقوام متحدہ کے اُس چارٹر کا بھی حوالہ دیا جس میں مختلف ممالک اور اس میں بسنے والی قومیتوں کے درمیان بہترین تعلقات کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت اور مکالمے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے شرکا نے 1994میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اُس قرارد اد کا بھی حوالہ دیا جس میں برداشت، رواداری اور قیام امن کے لیے کوششوں کا اعادہ کیا گیا ہے جبکہ1995ء کو ”برداشت کا سال“ اور 2001ء کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا سال“ بنائے جانے کے حوالے سے بھی مقالے پیش کیے گئے۔ شرکا نے گذشتہ ماہ مکہ مکرمہ سے جاری ”اعلان مکہ“ کو امن، محبت، بھائی چارے اور دنیا سے اختلافات کے خاتمے کے لیے ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کو ”خادم انسانیت“ کا لقب بھی دیا ۔