33 پل
یہ پل پہلےشاہ عباس کے دور حکومت کے آثاروں میں سے اپنی نوعیت کا ایک بےمثال شاھکار ہے ۔ یہ پل سردار معروف اواللہ وردىخان کے سرماۓ سے اسی کی نگرانی میں تعمیر کیا گیا ۔ اس پل کی لمبائی 300 میٹر اور چوڑائی 14 میٹر ہے اور 1005ھجری میں بنایا گیا ۔ سب سے لمبا دریا کا پل ہے ۔ دور صفویہ میں آبریزان یا آبپاشان ارامنہ کے جشن کی رسو مات اسی پل کے کنارے ہوتی تھیں ۔ ارامنہ جلفا ''خاج شویان'' کی رسومات بھی اسی پل کے کنارے منعقد ہوتی تھیں۔اس پل کو ایران اور دنیا کے فنون معماری کا ایک شاھکار سمجھا جاتا ہے ۔
انگلستان کے سیاحوں نے اس کا رقبہ چار سو نوّے یا رڈ مقرر کیا ہے اس پل کے سات دہانوں کو بند کردیا گیا ہے لیکن اب بھی اس کے 33 دہانے موجود ہیں اور اسی لیے یہ 33 پل کے نام سے مشہور ہے ۔
اس پل کو شاه عباسی پل، اللہ وردی خان پل، جلفا پل، چالیس چشمہ پل اور تنتیس چشمہ پل کے نام دیے گۓ اور اس کی وجہ کچھ اس طرح ہے: شاه عباسى پل اس لیے کہا جاتا ہے کہ پہلےشاہ عباس نے اس کو بنانے کا حکم دیا تھا اور چونکہ اللہ وردیخان کی زیر نگرانی بنایا گیا اس لیے اللہ وردیخان پل مشہور ہو گیا اور اس لیے کہ اس پل کو لوگ جلفا جانے کیلیے استعمال کرتے تھے' جلفا پل کہا گیا اور چونکہ شروع میں اس کے چالیس چشمے ہوتے تھے' چالیس چشمہ پل اور اب تنتیس چشمہ, اس لیے تنتیس چشمہ پل کے نام سے مشہور ہے ۔
یہ پل چار باغ کہ کھنہ عباسى روڈ کو چار باغ بالا روڈ اور ھزار جریب باغ اور عباس آباد سے ملانے کیلیے بنایا گیا ۔یہ پل آبریزان اور آبپاشان جشن میں، شاہوں ، بزرگوں اور شاعروں اور دوسرے لوگوں کے اجتماع کی جگہ بھی رہا ہے ۔