عشق آفتاب
"من بہ خال لبت ای دوست گرفتار شدم "
حضرت امام خمینی قدس سرہ کے روح فرسا ارتحال کے بعد بہت سے لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ عشق و معرفت سے سرشار یہ حسین و دلنواز غزل ایک ایسے عارف حق کی ہوسکتی ہے کہ جس نے بیسویں صدی کا سب سے عظیم انقلاب برپا کیا ہو اور جس کو موجودہ دنیا عصر جدید کا سب سے بڑا انقلابی رہنما تصور کرتی ہے ۔ واقعا" یہ یقین کرنا بہت ہی دشوار تھا خصوصا" امام خمینی (رح) کے ان عاشقوں اور مقلدوں کےلئے جو ایران میں یا ایران سے باہر دوسرے ملکوں میں آپ کو ایک عظیم الشان مرجع وقت اور حسینی انقلاب کا نقیب سیاسی مذہبی رہنما کےعنوان سے ہی جانتے اور پہچانتے تھے ۔
بھلا اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سےقبل و بعد مسلسل طور پر اس مرد مجاہد کی زندگی سراسر جہاد وانقلاب رہی ہے لبوں پر امام خمینی (رح) کا نام آتے ہی ایک ایسے سیاسی اور انقلابی شخص کی تصویر آنکھوں میں مجسم ہوجاتی ہے جس کا پورا وجود محمدی نہیب اور علوی جلال کا پیکر ہو جس نے کسی بھی طاغوتی قوت کے سامنے سرجھکانا تو کجا اسلام و قرآن کی الہی راہ سے انحراف رکھنے والی کسی بھی بات پر سمجھوتا کرنا کبھی پسند نہ کیا ہو جس کے انقلابی بیانوں اور آتشیں تقریروں سے ظلم واستبداد کے خرمن خاکستر اورجبر و استحصال کے فرعونی ایوان ویران و تباہ ہوجاتے ہوں جس کی حریت و بیداری کے نعروں نے دنیا کی تمام مظلوم و محروم قوموں اور ملتوں کو سامراجی طاقتوں سے جہاد و مقابلے کا جذبہ اور حوصلہ عطا کردیا ہو جس نے مردہ دلوں اور دماغوں میں آزادی و خود مختاری کی تڑپ اور ہمت بخشی ہو جس کا نام سن کر وقت کی دونوں بڑی طاقتیں اور مشرق و مغرب کی شیطانی قوتیں ستم و جور کی دیواروں سے سر ٹکرانے اوربغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتی ہوں ۔
اس کے ہونٹوں پریہ عاشقانہ اور عارفانہ غزل ،یقین نہیں آتا !
وہ مرد حق جس نے خدا پر توکل نبی رحمت کی تعلیمات پر یقین اور اہلبیت عصمت و طہارت کے پیغامات پر اعتماد کرتے ہوئے صفحۂ ہستی کےتمام ڈکٹیٹروں کے کانوں میں موت کی گھنٹی بجا دی ایک ایسے دلیر و شجاع انسان کے سینے میں ایک شاعر عارف کا دل دھڑک رہا ہے ۔ بھلا کون تصور کرسکتا تھا!
سمجھ میں نہیں آتا علوی خصوصیات کے حامل، روح اللہ امام خمینی (رح) کو آدمی کس لقب سے یاد کرے مرجع وقت ، اعلم دوراں، فقیہ، مجاہد، فلسفی، سیاستداں، عارف، عاشق یا شاعر، خطیب اور مقرر؟
جی ہاں یہ تمام کمالات امام خمینی (رح) میں بیک وقت جمع ہوگئے تھے وہ سب کچھ تھے مگر خود کو کسی بھی خطاب و القاب کا اسیر نہیں کیا ۔ ان کا وجود اس قدر وسیع و بسیط تھا کہ تقرب الی اللہ کے سفر میں ہر طرح کی فضیلت و کرامت کو اپنے اندر جذب کرلینے کی پوری قوت و صلاحیت رکھتا تھا ۔ وہ اس نورانی سفر کو طے کرتے وقت کسی بھی منزل میں کبھی نہیں ٹھٹکے اور کبھی نہیں گبھرائے اپنی لطیف و پاکیزہ روح کے سہارے کمال انسانیت کے کوہ قاف تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتے تھے انہوں نے اپنی تمام قوتوں اور توانائیوں کو پھلنے پھولنے اورعملی شکل اختیار کرنے کا موقع دیا اور ہر میدان کے شہسوار ثابت ہوئے ۔اسی لئے وہ اگر مرجع وقت فقیہ اعظم کہے جانے کے مستحق نظر آتے تھے تو فلسفہ و سیاست کے میدان میں بھی اپنے وقت کے مرد میدان بنے ہوئے تھے وہ اگر ایک طرف عارف کامل تھے تو دوسری طرف عاشق صادق بھی تھے وصل محبوب اور طلب معشوق میں اس قدر سرشار تھے کہ ابراہیم(ع) وار خود کو آتش نمرود میں جھونکے کا حوصلہ رکھتے تھے اور کسی عاشق دل باختہ کی طرح فریاد کرتے تھے:
فرخ ان روز کہ از ا یں قفس آزاد شوم | یعنی :خوشا وہ روز کہ اس قید سے آزاد ہوں ہم |
از غم دوری دلدار رہم شاد شوم یعنی غم فرقت سے رہا یار کرے شاد ہوں ہم
وہ حقیقتا" پیکر وقت میں " روح اللہ " تھے جو خورشید عصر کی صورت میں مشرق حقیقت سے طلوع ہوئے اور اپنی آفتابی شعاعوں سے زمانے کی تمام ظلمتوں اور تاریکیوں کو اسلام و انقلاب کا پیغام دے کر خواب غفلت سے جنھجوڑدیا ۔وہ روح اللہ تھے جس نے ظلم و استبداد کی شہوتوں میں اسیر ایک زمانے کو قم مقدس کی پاکیزہ فضاؤں سے آواز دی تھی:
" بہ پا خیزيد مسلمانان بہ پا خیزید "
اور جس کی ایک آواز پر ایک ملت نے " یا موت یا آزادی " کا نعرہ بلند کیا تھا ، جو عشق و محبت کا وہ بیکراں سمندر تھا جس میں پاک وصاف قطرے ہر چہار سمت سے آتے اور جذب ہوتے چلے گئے ۔وہ جس نے اپنے عشق اور معرفت کو صلائے عام بنادیا ۔
بگذر از خویش اگر عاشق دل باختہ ای |
یعنی : خود کو کردیجئے فنا عاشق صادق ہیں اگر |
آئیے گفتگو کے اس آخری حصے میں ہم امام خمینی (رح) کو خود ان کے ہی کلام کے آئینہ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں پتہ نہیں آپ ہم سے متفق ہیں یا نہیں پھر بھی دیکھیں امام خمینی (رح) کا کیا جواب ملتا ہے ۔
بسم اللہ :
من بہ خال لبت ای دوست گرفتار شدم | چشم بیمار تو را دیدم و بیمار شدم |
آپ کا نام اور پتہ :
الا یا ایہا الساقی : زمی پرساز جامم را |
کہ از جانم فرو ریزد ہوای ننگ و نامم را |
مذہب و مسلک :
"رہرو عشقم و از خرقہ و مسند بیزار "
تعلیم :
در میخانہ گشائيد بہ رویم شب و روز | کہ من از مسجد و از مدرسہ بیزار شدم |
نسل و خاندان :
ما زادہ عشقیم و پسر خواندہ جامیم |
در مستی و جان بازی دلدار تمامیم |
جوانی کا زمانہ کیسے گزرا : |
"در کوی دوست فصل جوانی بہ سر رسید" |
اس وقت عمر کیا ہوگی : |
" پیرم ولی بہ گوشہ چشمی جوان شدم" |
|
|
شعر کہنا کب سے شروع کیا :
" ندانم از شب وصل است یا زصبح فراق"
شاعرانہ تخلص :
"مخوان حدیث شب وصل خویش را " ہندی"
سرمایۂ حیات :
گرچہ از ھر دوجھان ہیچ نشد حاصل ما |
غم نہ باشد چو بود مہر تواندر دل ما |
عالمی شہرت کی وجہ :
" پرتو روی تو ای دوست جہانگیرم کرد "
اگر پوری دنیا مخالفت میں سامنے کھڑی ہوجائے :
دست از دامنت ای دوست نخواہم برداشت |
تا من دلشدہ را یک رمق و یک نفس است |
سیاسی زندگی کا سب سے بڑا دکھ :
تا بہ کی این کافران نوشند خون اہل ایمان |
چند این گرگان کنند این گوسفندان را شبانی |
15 خرداد کا خونین حادثہ :
ما را رہا کنید از این رنج بی حساب |
با قلب پارہ پارہ و با سینہ ای کباب |
اور یوم اللہ 22 بہمن :
این عید سعید عید حزب اللہ است |
دشمن زشکست خویشتن آگاہ است |
اسلامی جمہوری حکومت :
بگذار چراغ ، صبح گردید |
خورشید جہان مدار آمد |
کامیابی کا راز :
تا شدم خادم درگاہ بت بادہ فروش |
بہ امیر دو عالم ہمہ فرمان بدہم |
خود کو امام و رہبر کے بجائے خدمتگار کہنا کیوں پسند کیا:
" تا کوس اناالحق بزنی ، خودخواہی " |
کیا خدا کا دیدار ممکن ہے اگر ہے توکیسے ؟ : |
عیب از ماست اگر دوست زما مستور است |
دیدہ بگشای کہ بینی ہمہ عالم طور است |
ہم کس عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں : |
" در حجابیم و حجابیم و حجابیم و حجاب " |
ا ور اگر پردے اٹھ جائیں |
" وای اگر پردہ زاسرار بیفتد روزی " |
مقام آدمیت :
قدسیان را نرسد تا کہ بہ ما فخر کنند |
قصۂ " علم الاسماء " بزبان است ہنوز |
ذکرخیر :
بگذارید کہ از میکدہ یادی بکنم |
من کہ با دست بت میکدہ بیدار شدم |
راہ عشق و عاشقی :
سالہا باید کہ راہ عشق را پیدا کنی |
این رہ رندان میخانہ است راہ سادہ نیست |
کیا آپ نے کبھی عشق کیا ہے ؟ : |
جز رخ دوست ، نظر سوی کسی نیست مرا |
عاشقوں کا گم شدہ ؟ |
" ہمہ ذرات جہان در پی او در طلب اند" |
شب قدر :
" خدای ہرچہ ازو خواستیم داد امشب "
نیمۂ شعبان :
میلاد گل و بہار جان آمد |
برخیز کہ عید می کشان آمد |
حدیث عاشورا :
یار امشب پی عاشق کشی است |
من نہ گو یم ز خد نگش پیداست |
خداسے کیا چاہتے ہیں :
توفیق تحصیلم عطا فرما و زہد بی ریا |
تا گردم از لطف خدا از عالمین عاملین |
دل کادرد :
راز دل را نتوانم کسی بگشایم |
کہ دریں ز دیر مغان راز نگہداری نیست |
کوئی اچھی خبر :
وعدۂ دیدار نزدیک است یاران مژدہ باد |
روز وصلش می رسد ایام ہجران می رود |
حسرت :
عمری گذشت و راہ نبردم بہ کوی دوست |
مجلس تمام گشت و ندیدیم روی دوست |
حسن ختام کے طور پر کیاکہنا چاہئیں گے :
یہ ساغر ختم کردم این عدم اندر عدم نامہ |
بہ پیر صومعہ برگو ، ببین حسن ختامم را |
متعلقہ تحریریں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای (دامت برکاتہ)
امام خمینی کی نظر میں اتحاد