تاريخ ايران
مقدمہ:
ایران کی جغرافیایی حیثیت یہ ہے کہ وہ مرکزی ایشیا اور مشرقی ایشیا کو مشرق سے قریب اور یورپ سے متصل کرتا ہے ۔ سر زمین ایران قدیم زمانہ ہی سے لوگوں کی مہاجرت اور سکونت کا مرکز ہونے کےعلاوہ بڑے بڑے جنگلوں پرمشتمل اورمختلف ادوارکا شکار رہی ہے۔
سرزمین ایران پر انسان کے موجود ہونے کی تاریخ زیادہ واضح نہیں ہے لیکن پھربھی بعض محققین نے افریقا، مرکزی ایشیا، قفقاز اورشبہ قارہ ہندوستان سے بہت سے لوگوں کے ہجرت کرکے سرزمین ایرن پر آنے کے بارے میں بیان کیاہے۔ ظاہرا سب سے پرانی جگہ جہاں پر ایک بہت پرانا تاریخی پتھر بھی نصب کیاگیاہے جوایران میں پایاجاتاہے وہ خراسان میں بستر رودخانہ کشف کے نزدیک واقع ہے جس سے بہت پرانے پتھر کے اوزاروں کے بارے میں کچھ معلومات ملتی ہیں اس جگہ کے بارے میں اندازہ لگایا جاتاہے کہ یہ جگہ تقریبا ۸۰۰ سال پرانی ہے۔
بہت سے پتھروں کے اوزار زمانہ قبل ازتمدن سے متعلق ہیں جو کہ شیراز کے شمال مشرق میں کشف ہوئے ہیں۔ ان تمام ادوار کو طے کرنے کے بعد جس وقت یورپ بھی زمانہ قبل از تمدن میں زندگی بسر کرہاتھا، ایران میڈل ایسٹ کے دوسرے ملکوں کی طرح جدید متمدن دور میں داخل ہوچکا تھا ، انسان کی زندگی اور پہلے تمدن سے مربوط بہت سے آثار اور شواہد ، ایران میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک کوشش غار کمربند (بہ شہر کے نزدیک) اورغار ہوتو (تریجان کے نزدیک بہشہر کے مغرب میں) انجام پائی ہے ان تمدنوں کی قدمت تقریبا ۹۰۰ سال ق م تک پہنچتی ہے اوردوسرے آثار جو آسیاب کے ٹیلے (کرمانشاہ کے مشرق میں) گنج دور (کنگاور کے مغرب جنوبی میں) سرآب کاٹیلہ(کرمانشاہ کے مشرقی شمال میں) زاغہ کاٹیلہ (جوبوئیں زہرا کے علاقہ میں واقع ہے ) ٹل باکون (تخت جمشید کے مغرب جنوبی میں) یانیق کاٹیلہ( تبریز کے مغربی جنوب میں) چغامیش کاٹیلہ (دزفول کے مشرقی جنوب میں) گودین کاٹیلہ(کنگاور کے مغرب میں) گیان کا ٹیلہ (نہاوند کے نزدیک) چشمہ کاٹیلہ (شہر ری کے نزدیک) ابلیس کاٹل (کرمان بردسیر میں) اور یحیی کاٹیلہ (بافت کرمان کے جنوب میں) ملتاہے ان سب چیزوں سے معلوم ہوتاہے کہ ۴سے ۹ ہزاراسال ق م پہلے انسان اس سرزمین پر زندگی بسر کرتے تھے ۔بمپور (نہرہلیل کے درہ کے نزدیک) جلاہواشہر (زابل کے جنوب میں)ٹیلہ شوش اور سات ٹیلہ(مشرقی شوش کے جنوب میں) ٹیلہ حسنلو(نقدہ کے قریب) ٹیلہ مارلیک یا چراغ علی کاٹیلہ (گیلان کی نہر کے پاس) ٹیلہ تورنگ (مشرقی گرگان کے شمال میں) ٹیلہ زیویہ) مشرق شقزمیں) ٹیلہ حصار (دامغان کے قریب) ٹیلہ موسیان (دھلران کی سرزمین پر)شہداد یا خبیث کاٹیلہ اور قبرستان (کرمان کے مشرق میں) اور ٹیلہ گنج(کلاردشت مازندارن میں) یہ سب آثار ،بیابان ایران کے بہت پرانے تمدن ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور معلوم ہوتاہے کہ یہ سب آثار ایک ہزار سال قبل از میلادی سے یہاں پرموجود ہیں۔
پہلے تمدنوں میں سے ایران کی تاریخ میں جوبہت ہی مشہور تمدن کہاجاتاہے وہ سیلک کاتمدن ہے۔اس تمدن کے آثار سیلک کے ٹیلوں (مغربی کاشان کے جنوب (میں پائے جاتے ہیں اوریہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایران کے بیابان سب سے پہلے والے انسانوں کے زندگی بسرکرنے کی سب سے پرانی جگہ ہے ۔ قدیمی ترین سیلک کے ٹیلوں کی قدمت تقریبا پانچویں ہزارہ کے شروع اور چھٹے ہزارہ کے اواخر قبل از میلادی تک پہنچتی ہے۔ اس زمانے کے جو مٹی کے برتن ہم تک پہنچے ہیں وہ سب سے پہلے تمدن کی خبردیتے ہیں اس سرزمین پر مٹی کے برتنوں کا استعمال زیادہ معلوم دیتاہے ان میں سے بعض کی قدمت تو تقریبا ۴۰۰۰ سال قبل از میلادی تک پہنچتی ہے اوراسی وجہ سے بیابان ایران کو سب سے پہلے مٹی کے برتنوں کاگہوراہ کہاگیاہے۔
بیابان ایران کے جنوبی اورمغربی علاقہ کاجو ارتباط بین النہرین سے ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ علاقہ دوسرے علاقوں سے پہلے تاریخی دور میں داخل ہوگیاتھا اس لئے کہ قبل از میلادی کے تیسرے ہزارہ کے شروع میں خوزستان کے بیابان میں جو خطی تصویریں اختراع کی گئی ہیں ان کو”ایلامی آغازین“ کہاجاتا ہے ۔ اس خط کے نمونے سیلک میں، ٹیلہ کنگاور کے گہرائی ،ٹیلہ ملیان فارس یہاں تک کہ زابل کے جلے ہوئے شہر میں بھی ملتے ہیں جو کہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس زمانے میں مغربی ایران کے بیابان دوسری جگہوں کے بیابان سے ثقافتی اتصال رکھتے تھے۔
مغربی ایران کے بہترین ساکنین میں سے (جنوب سے لیکر شمال تک) یہ لوگ تھے : ایلامیان، کاسی ھا،لولوبی ھا،گوتی ھا،ان قوموں کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں اور زبان وقبیلہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قریب بھی تھے، ایلامیوں کی اصلی سرزمین،شوش دریائے کارون نامی درے اور خوزستان کا قلعہ تھا جوکہ پہاڑی اور شمال کے بلند وبالا بیابیان اور شوش کے نچلے حصہ سے مشرقی شمال تک جاتا ہے۔ لیکن ایلامیوں کی بادشاہت نے بہت ساری وسیع زمین کو اپنے حصہ میں لے رکھا تھا اور جنوب تالیان(بوشہر موجودہ) اورمشرق میں انشان یا انزان (ٹیلہ ملیان، مرودشت فارس کے قریب) کو شامل ہوتی تھی قدیمی ادوار میں بین النہرین کا اقتصاد بیابان ایران کے طبیعی منابع اور زاگرس کے پہاڑوں سے وابستہ تھا سومریوں اور آکدیوں کی خوزستان اور زاگرس کے پہاڑی علاقوں پر حملہ کاسبب یہی چیزتھی،اس سب لوٹ مار کی وجہ سے تیسرے ہزارہ ق م کے درمیان شاہک نشین خرد نے زاگرس او رخوزستان کے درمیان پہاڑی علاقوں میں ایک سیاسی او رفوجی متحد حکومت ایلام کا اعلان کردیااور تقریبا ۶۴۶ق م تک آشوریوں کے ہاتھوں سقوط سے پہلے یہاں پر متعددجگہوں پر بادشاہی تھی،پوزور(کوتیک) این شوشینک، شیلھک، اونتش۔ گل، شوتروک۔ نھونتہ۔ کوتیر۔ کوتیر۔ نھونتہ و شیلھک۔ این شوشینک ایلامی سلسلہ کے حاکموں میں سے نامدار ترین حاکم تھا شوش اورانشان کے علاوہ دوسرے شہر اون(احتمالا شوشتر موجودہ)،سیمش (خرم آباد موجودہ)،مدکتو (احتمالا شمال شوش میں) اور ھیدلو (مشرق کے پہاڑوں میں فارس کے راستہ کی طرف) ان کا حکومت ایلام کے بڑے شہروں میں شمار ہوتاتھا۔
اقوام کاسی، لولوبی و گوتی زاگرس مرکزی میں زندگی بسرکرتے تھے انہی میں سے کاسی تیسرے ہزارہ قبل از میلادی کے اواخرمیں سرزمین لرستان پرزندگی بسر کرتے تھے لیکن ان کی اصل جگہ بالکل صحیح معلوم ومعین نہیں ہے۔ ۱۶ یا ۱۷ قرن ق م سے لیکر تقریبا ۱۱۵۵ ق م بابل انہی لوگوں کے زیر تحت تھا یہ بین النہرین پر غیرایرانیوں کی سب سے طولانی مدت کی کامیابی ہے۔ لرستان کامس جوکہ مغرب ایران کے ہنر کے بہترین نمونے تھے دوسرے ہزارہ کے اواخر اور پہلے ہزارہ کے شروع میں پایاجاتاتھا بہت سے محققین نے اس کو اقوام کاسی سے منسوب کیاہے لولوبیوں نے ظاہرا زاگرس کے پہاڑی علاقہ اور دوسرے وسیع علاقوں پر اپناتصرف کررکھاتھا اورانہوں نے اپنامرکز شہر زور کو بنارکھاتھا ۔ مہم ترین یاد گار جووہ چھوڑ کرگئے وہ لولوبی بادشاہ انوبینی کاایک برجستہ نقش ہے جو پل زہاب کے قریب ہے اور اس کے اوپر ایک کتیبہ بھی اکدی زبان میں موجود ہے ۔ گوتی قوم جو کہ شاید شہر زور کے شمال میں زندگی بسر کرتی تھی تیسرے ہزارہ کے اواخرمیں انہوں نے بابل کو اپنے قابومیں لے لیا اوراس کے کچھ بعد ایلام پر بھی اپنا تسلط جمالیا۔
لیکن ایران کی تاریخ ”آریوں کی سرزمین “ہونے کی حیثیت سے قوم آریا (ہندوستانی اورایرانی)کے یہاں پرہجرت کرنے سے بیابان ایران میں داخل ہوکراپنا آغاز کرتی ہے آریائی ہندوستان اور اروپا کی قوموں میں سے ایک قوم تھی جوکہ ایک دوسرے سے جداہونے کے بعد دوسر ے ہزارہ میں مرکزی ایشیا میں زندگی بسر کرتے تھے زرتشتیوں کی کتابوں میں ایرانیوں کی پرانی سرزمین کانام ”ایران ویج“ بیان کیاگیاہے اورندیداد میں بیان کیاگیاہے کہ ایران ویج سب سے پہلی سرزمین ہے جوکہ اھورہ مزدا کے ہاتھوں پیداہوئی ہے بعض محققین کی نظر میں جس وقت بیابان ایران میں لوہے کازمانہ اپنے عروج پر تھاآریائی مہاجرتقریبا ۸۰۰ سے لیکر ۱۰۰۰ ق م میں اس سرزمین کے مغربی علاقہ میں داخل ہوئے تھے آریائیوں کے ایران میں داخل ہونے کے راستے کے بارے میں بہت سے لوگوں کاکہناہے کہ یہ مہاجر مرکزی ایشیاسے مغرب کی طرف آئے یہاں تک کہ زاگرس کے پہاڑوں تک پہنچ گئے لیکن دوسرے لوگوں کانظریہ ہے کہ آریائی مہاجرین دو مختلف راستوں دریائے خزر کی طرف سے ایران میں داخل ہوئے ہیں اور طوائف مادی وپارسی قفقاز کے راستے سے سرزمین ایران میں داخل ہوئے ہیں کیانی حکمرانوں کی روایات سے پتہ چلتاہے کہ آریائی زردشتیوں کے زمانے تک ایران میں موجود تھے۔
نویں صدی قبل از مسیح سے آریائی قوم کا شکنجہ زاگرس کے پہاڑی علاقہ میں بومیان پرزیادہ ہوگیا اور انہوں نے مغرب کی طرف پڑھتے ہوئے رفتہ رفتہ وہاں کے رہنے والوں کوشہروں اورآبادیوں سے باہر نکال دیااور آشوریان کے برابر میں کھڑے ہوگئے اسی وجہ سے ماد وپارس کی اقوام کا نام پہلی مرتبہ آشوریوں کی کتابوں میں آگیا اوران کی سرزمینوں کے نام ”مدی“ ۶ (ہمدان کے قریب) و”پرسوئیہ“۷ (دریای ارومیہ کے مغرب اورجنوب مغربی علاقہ بتائے گئے ہیں شلمنصر آشوریوں کے تیسرے بادشاہ کے سالنامہ میں ۸۴۴ ق م میں پارسیان کا اور ۸۳۶ ق م میں مادیوں کانام لیاگیا اسی کے ہم عصر نویںصدی قبل از مسیح کے اواخر اورآٹھویں صدی ق م کے اوائل میں آشوریوں کی حکومت کمزور ہوگئی اوران کی یہ کمزوری اورارتور (آرارات) کی حکومت کے مضبوط ہونے کاسبب بن گئی اورارتو کی وسیع قدرت آشور کی پریشانی کاسبب تھی اور آشوری بادشاہ ،اپنی سرحدوں پراورارتو کے احتمالی حملوں کا جواب دینے کیلئے مجبور تھے کہ ایک بہت بڑی فوج تیار رکھیں ۔ اورارتو کے ایک بادشاہ نے آٹھویں صدی ق م کے شروع میں آشور کو دھمکی دی کہ وہ دریای اورمیہ کے مغربی ساحل پر اپنا قبضہ جمالے گا اوردوسری زمینیں بھی جوکہ قبیلہ مانای سے متعلق ہیں اور دریاکے مشرقی ساحل کے برابر میں ہیں اپنی زمین میں بڑھا لے گا لیکن جنگجو اورمستقل طلب آریایی اورپارس قوموں کے حالات پر نظررکھنے کی وجہ سے جوکہ اسی سرزمین پرمستقر تھے بہت مشکل تھا اوراسی حس استقلال نے ان اقوام کی مددکی فرمانروای تیگلت پیلسر سوم (۷۴۴۔۷۲۷ق م)کے آغاز میں آشوریوں نے مغرب پراورارتو کے وسیع نفوذ کو مقابلہ میں ایک لشکرکشی کی اور زاگرس کی وسیعی سرزمین ان کے تصرف میں آگئی۔آشوریان کے اس فوجی حملے نے ان کو مادیوں کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور۷۳۷ق م میں یہ لوگ مادیوں کے قلمرو میں داخل ہوگئے۔ آشوریوں کے کتیبہ اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ یہ لوگ مادیوں سے خراج لیتے تھے اوران کی سرزمین میں حتی کے پہاڑوں پربھی انہوں نے اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ بیکنی نامی پہاڑی کی اہمیت کا تعین(جسے پہلے دماوند کاہی حصہ تصور کیاجاتاتھا) اورآج اسے قلہ الوند پرمنطبق کیا جاتاہے،آشوریوں کے مادیوں کی حکومت میں نفوذ اور قبضہ کی حدود کو واضح کرسکتاہے
ماد و پارس کے قبیلوں نے مہاجرت کی وجہ سے یاپھر ایران میں مستقرہونے کی وجہ سے آپس میں رشتہ داری قائم کرلی اوران کے وہاں پرمستقل ہوجانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے رشتہ داری قائم کرنے میں کوئی روکاوٹ نہیں تھی اسی وجہ سے زبان شناسی کی جدید تحقیق بتاتی ہے کہ واژہ ”ماد“ کاریشہ ہند یا یورپ سے نہیں لیاگیاہے ہرودت کی تحقیق کے مطابق پرانے زمانے میں تمام مادیوں کو آریائی کہاجاتاتھا ہرودت مادیوں کے ۶ بڑے قبیلوں کا ذکر کرتاہے جن میں سے ”مغھا“ ایک قبیلہ ہے ۔ یہی یونانی مورخ پارسیوں کے بارے میں کہتاہے کہ یہ ۱۰قبیلوں سے مل کربناہے اور پاسار گادیوں میں سے ھخامنشیان بھی انہیں میں سے تھے ان کو پارسی قبیلہ کا سب سے اچھا قبیلہ مانتے ہیں ۔ درحقیقت پارسی بھی اسی زمانے میں ماد قبیلوں پر قدرت پانے کی وجہ سے اور تقریبا ۸۱۵ سال ق م سے اپنی پہلی سرز مین ایران سے جنوب کی طرف چلے گئے اورشوش کے مشرقی شمال میں پرسومش ۳ کے علاقہ میں مستقر ہوگئے تقریبا ۷۰۰ سال ق م، ھخامنش قبیلہ پارسی کا سربراہ جوکہ ظاہرا سناخریب پادشاہ آشوری کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد(۶۹۲) متحد ایلام و بابل تھا۔ اسی طرح پارسی بھی اس زمانے میں مادیوں کے ساتھ ساتھ تھے لیکن حالات نے کردگان ماد کی زیادہ مدد کی اورانہوں نے قبیلہ ماد کومتحد کرکے پارسیوں سے پہلے اپنی حکومت بنالی۔