تفسیر سورہ بقرہ ( آیات 58 و 59)
وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (58)
اور وہ وقت بھى ياد كرو جب ہم نے كہا كہ اس قريہ ميں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمينان سے كھاؤ اور دروازہ سے سجدہ كرتے ہوئے اور حطہ كہتے ہوئے داخل ہو كہ ہم تمھارى خطائيں معاف كرديں گے اور ہم نيك عمل والوں كى جزا ميں اضافہ بھى كرديتے ہيں _
1_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ بيت المقدس كو آباد كرنے كے لئے وہاں داخل ہوجائيں_
و إذ قلنا ادخلوا ہذہ القرية
لغت ميں '' قرية'' كا معنى ديہات اور شہر بھى آياہے قرآن كريم ميں بھى دونوں معانى ميں استعمال ہوا ہے _ اب چونكہ كوئي قرينہ نہيں ہے كہ
195
كس معنى ميں استعمال ہوا ہے لہذا '' آبادي'' كا مفہوم لياگياہے اور'' القرية'' ميں الف لام عہد حضورى ہے لہذا ايك خاص خطے كى طرف اشارہ ہے _ بہت سے مفسرين كى رائے يہ ہے كہ اس سے مراد بيت المقدس ہے _
2 _ بنى اسرائيل كى صحرائي زندگى كے بعد انہيں بيت المقدس كو اپنے تصرف ميں لانے كا حكم ديا گيا _
و ظللنا عليكم الغمام ... و إذ قلنا ادخلوا ہذہ القرية
3_ جب بنى اسرائيل كو بيت المقدس پر تصرف كا حكم ديا گيا تو وہ اس كے نزديك كسى مقام پر تھے_
و إذ قلنا ادخلوا ہذہ القرية
يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اسم اشارہ ''ہذہ'' نزديك كے لئے آتاہے_
4 _ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں بيت المقدس ايك آباد، نعمتوں سے پرُ اور غذاؤں سے بھر پور سرزمين تھي_
فكلوا منہا حيث شئتم رغداً
'' رغداً _ پاك ، آسائشے سے بھر پور اور خير و بركت سے معمور'' يہ لفظ منہا كى ضمير كے لئے حال واقع ہوا ہے اسكى دليل '' كلوا'' ہے كہ اس سے مراد نعمتوں اور غذاؤں كى فراوانى ہے_
5_ بيت المقدس كے تمام نقاط سے غذاؤں كا آمادہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے حلال اور مباح تھا_
فكلوا منہا حيث شئتم
'' حيث _ جہاں سے چاہو'' يہ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ نعمتوں سے استفادہ كے لئے بيت المقدس كے كسى خاص مقام كو معين نہيں كيا گيا _
6 _ بيت المقدس كے تصرف اور قبضے كے لئے اسكا دروازہ اللہ تعالى كى جانب سے معين كيا گيا راستہ تھا_
ادخلوا ہذہ القرية ... و ادخلوا الباب
7_ بيت المقدس پر قبضے كے وقت اللہ تعالى كے حضور خشوع و خضوع كا اظہار بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے فرامين ميں سے تھا_
وادخلوا الباب سجّدا
''ساجد'' كى جمع '' سجدا'' ہے اور ''ادخلوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے _ داخل ہوتے ہوئے سجدہ كى حالت ميں ہونا يہ اصطلاحى معنى ( خاك پر پيشانى ركھنا ) سے مناسبت نہيں ركھتا پس كہا جاسكتاہے كہ يہاں اس سے مراد اسكا لغوى معنى ہے يعنى خشوع و خضوع_
8_ بيت المقدس كو تصرف ميں لاتے وقت گناہوں سے توبہ كرنا بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى جانب سے حكم تھا_
ادخلوا ... و قولوا حطة
''حطة'' مبتدائے محذوف مثلاً '' مسألتنا'' كى خبر ہے يہ اسم مصدر ہے اور اسكا معنى ہے ركھنا يا نيچے اتارنا _ جملہ '' نغفر لكم ...'' كے قرينے سے اس سے مراد گناہوں كا اٹھنا يا بخشش ہے _ بنابريں '' قولوا حطة'' يعنى كہو اے اللہ ہمارى درخواست ہمارے گناہوں كى معافى ہے_
196
9 _ اللہ تعالى نے حضرت موسى (ع) كى قوم كو ان كے گناہوں كى بخشش كى خوشخبرى دى اس صورت ميں كہ وہ بيت المقدس ميں آداب كا خيال ركھتے ہوئے داخل ہوں_
ادخلوا ہذہ القرية ... و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم
ظاہراً ايسا ہے كہ '' نغفر لكم'' آيہ مجيدہ ميں پيش ہونے والے سارے امور كا جواب ہے_ پس اسكى تقدير يوں بنتى ہے '' ان تدخلوا و تاكلوا و تدخلوا الباب سجداً و تقولوا حطة نغفر لكم''
10 _ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے بنى اسرائيل پر بہت سارے گناہوں كا بوجھ تھا_
نغفر لكم خطاياكم
يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''خطاياكم'' جمع استعمال ہوا ہے_
11_ انسان كے گناہوں كى بخشش كا اختيار اللہ تعالى كے پاس ہے _
نغفر لكم خطاياكم
12 _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں استغفار گناہوں كى بخشش كا موجب بنتى ہے _
و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم
13 _ اللہ تعالى كے فرامين كا اجراء گناہوں كى بخشش كى زمين فراہم كرتاہے_
و ادخلوا الباب سجدا ... نغفر لكم خطاياكم
14 _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ و استغفار كے لئے ضرورى ہے كہ پروردگار كى جانب سے ديئے گئے احكام و آداب پر عمل كيا جائے_
و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم
15_ حضرت موسى (ع) كى قوم ميں پاك دامن اور اچھے كردار كے لوگ موجود تھے_
و سنزيد المحسنين
'' المحسنين _ نيك لوگ'' ،ہوسكتاہے كہ يہ لفظ بنى اسرائيل كے دوسرے گروہ كے بارے ميں ہو اور يہ مطلب جملہ '' نغفر لكم خطاياكم'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كے دو گروہ تھے ايك گروہ گناہگاروں كا تھا جس كى طرف ''نغفر لكم خطاياكم'' كے ذريعے اشارہ كيا گيا ہے اور دوسرا گروہ پاك دامن افراد كا تھا اور ''المحسنين'' اسى كو بيان كررہاہے_
16 _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے پاك دامن اور نيك افراد كو اگر انہوں نے بيت المقدس ميں داخل ہونے كے آداب كا خيال ركھا تو ايك عظيم اجر عنايت كرنے كى خوشخبرى دى ہے _
قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم و سنزيد المحسنين
17_ اللہ تعالى كے احكامات كى اطاعت كرنے والے لوگ اگر نيك ہوئے تو انہيں دوسروں كى نسبت زيادہ اجر ملے گا _
و سنزيد المحسنين
18 _ حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل كا بيت
197
المقدس ميں وارد ہونے والا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل ہے _
إذ قلنا ادخلوا ... و سنزيد المحسنين
جملہ ''اذ قلنا ...'' ، نعمتي( آيت 47) پر عطف ہے يعنى ''اذكروا إذ قلنا ...'' اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے حكم ديا ...''
19 _ عن الباقر (ع) قال فى قولہ تعالى '' و ادخلوا الباب سجّدا '' ان ذلك حين فصل موسى من أرض التيّہ فدخلوا العمران ... (1)
اللہ تعالى كے اس فرمان '' و ادخلوا كے بارے ميں امام باقر (ع) سے روايت ہے كہ يہ حكم اس وقت ہوا جب حضرت موسى (ع) نے سرزمين ''تيہ'' سے نجات حاصل كى اور ايك آباد سرزمين ميں وارد ہوئے_
--------------------------------------------------
اجر:
اجر كے زيادہ ہونے كى شرائط 16،17
استغفار:
استغفار كے نتائج 12; استغفار كے آداب 14; استغفار كى اہميت 8
اطاعت گزار لوگ:
اطاعت گزاروں كا اجر 17
اللہ تعالى :
اللہ تعالى كى بخشش 11; اللہ تعالى سے مختص امور 11; اوامر الہى 1،2،7،8; الہى بشارتيں 9
بنى اسرائيل:
بنى اسرائيل كو بشارت 9; بنى اسرائيل بيابان ميں 2; بنى اسرائيل اور بيت المقدس كا تصرف 2،3،6،7،8،10; بنى اسرائيل كى تاريخ 1،2،3،6،18; بنى اسرائيل كى غذائيں 5; بنى اسرائيل كى سرگردانى 19;بنى اسرائيل كى بخشش كى شرائط 9; بنى اسرائيل كا گناہ 10; بنى اسرائيل كے نيك لوگ15،16; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى 7،8; بنى اسرائيل كى نعمتيں 5; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخلہ 1،9،16،18
بيت المقدس:
بيت المقدس كا آباد ہونا 1،4; بيت المقدس حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں 4; بيت المقدس كى تاريخ 4،6; بيت المقدس كا تصرف 3،7،8; بيت المقدس كى غذائيں 5; بيت المقدس كا دروازہ 6; بيت المقدس كے تصرف كا راستہ 6; سرزمين بيت المقدس 4
تكليف شرعي:
تكليف شرعى پر عمل كے نتائج 13
توبہ:
توبہ كے آداب 14
حضرت موسى (ع) :
حضرت موسى (ع) كا واقعہ 19
--------------------------------------------------------------------------------
1) تفسير عياشى ج/ 1 ص 45 ح 48 ، بحار الانوار ج/13 ص 178 ح 8_
198
خشوع:
خشوع كى اہميت 7
ذكر:
تاريخ كا ذكر 18
روايت:19
عمل:
اوامر الہى پر عمل 13،14،17
گناہ :
گناہ كى معافى كى زمين ہموار ہونا 13; گناہ كى بخشش كے عوامل 12; گناہ كى بخشش كا سرچشمہ 11
محسنين ( نيك لوگ):
محسنين كا اجر 16; محسنين كے درجات 17
فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ (59)
مگر ظالموں نے جو بات ان سے كہى گئي تھى اسے بدل ديا تو ہم نے ان ظالموں پر ان كى نافرمانى كى بناپر آسمان سے عذاب نازل كرديا _
1_ بيت المقدس ميںداخل ہونے سے قبل حضرت موسى (ع) كى قوم كے بعض لوگ ظالم اور گناہ سے آلودہ تھے_
فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لہم
2 _ حضرت موسى (ع) كى قوم كے حرام خوروں نے بيت المقدس ميں داخل ہوتے ہوئے اپنے گناہوں كى معافى مانگنے اور ''حطة'' كہنے كى بجائے كچھ اور كہنا شروع كيا _
فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لہم
ايسا معلوم ہوتاہے كہ''الذين ظلموا'' سے مراد
وہ لوگ ہيں جن كو آيت 57 ميں ان كى ناشكرى اور ناپاك غذاؤں سے استفادہ كى وجہ سے ظالم كہا گيا ہے_
3 _ حرام خورى اللہ تعالى كے فرامين سے بغاوت اور ديگر گناہوں كے ارتكاب كى زمين فراہم كرتى ہے_
فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لہم
4 _ ستم گرى اللہ تعالى كے احكامات سے انحراف كى بنياد
199
فراہم كرتى ہے _
فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لہم
5 _ حضرت موسى (ع) كى قوم كے منحرف اور ستم گر افراد آسمانى عذاب ميں مبتلا ہوئے_
فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء
6_ اللہ تعالى كے اوامر كو تبديل و تغيير كرنا ظلم ہے اور عذاب كا باعث ہے_
فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء
يہاں '' الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جنہوں نے '' حطة '' خدايا تجھ سے گناہوں كى معافى چاہتے ہيں كى جگہ كچھ اور اپنى زبانوں پر جارى كيا _
7_ بنى اسرائيل كے گناہگاروں پر آسمانى عذاب كا نازل ہونا ان كے پرانے فسق و فجور اور فرمان الہى كو تبديل كرنے كے گناہ كى وجہ سے تھا_
فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون
''بما كانوا يفسقون'' ميں باء سببيت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آسمانى عذاب كے نزول كا سبب بنى اسرائيل كا ديرينہ فسق تھا_ ان كو ظالم، ستمگر''الذين ظلموا'' كہنا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ عذاب ان كے ظلم كى وجہ سے ہوا اور يہ ظلم فرمان الہى كى تبديلى تھا بنابريں كہا جاسكتاہے كہ بنى اسرائيل كے ظلم و ستمگرى كے ساتھ ساتھ ان كا پرانا فسق ان پر عذاب كا باعث بنا _
8 _ اللہ تعالى كى طرف سے متعين شدہ اذكار اور متون كو تبديل كرنے سے اجتناب كرنا چاہيئے_
فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لہم
9_ فسق كا گناہ كرنے والوں كے لئے دنياوى عذابوں ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_
فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون
10_ الہى فرامين سے بغاوت اور انحراف ظلم ہے _
فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لہم
11 _ حضرت موسى (ع) كى قوم كے كچھ لوگ بڑے عرصے سے فاسق اور فسادى افراد تھے_
بما كانوا يفسقون
'' بما كانوا ...'' ميں باء سببية كى ہے اور '' ما'' مصدرية ہے _ فعل مضارع پر جب ''كان'' آجائے تو زمانہ ماضى ميں استمرار پر دلالت كرتاہے_
12 _ امام باقر (ع) سے روايت ہے '' ... و اما الذين ظلموا'' فزعموا حنطة حمراء فبدلوا ... (1) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم كيا '' انہوں نے جان بوجھ كر لفظ ''حطة' ' كو ''حنطة حمراء سرخ گندم ''ميں تبديل كرديا_
--------------------------------------------------------------------------------
1) بحار الانوار ج/ 13 ص 178 ح 8 ، الدرالمنثور ج/1 ص 173_
200
--------------------------------------------------
اذكار:
اذكار ميں تحريف سے اجتناب 8
استغفار:
استغفار كى اہميت 2
اللہ تعالى :
اللہ تعالى كے عذاب 6
بنى اسرائيل:
بنى اسرائيل كى تاريخ 2،5; بنى اسرائيل كى تحريف 7; بنى اسرائيل كے حرام خور 2; بنى اسرائيل كو استغفار كا حكم 2; بنى اسرائيل كے ظالم 1،12; بنى اسرائيل كے فاسقين 11; بنى اسرائيل كا فسق 7،11; بنى اسرائيل كا انجام ''سزا'' 7; بنى اسرائيل كے ظالموں كا انجام 5; بنى اسرائيل كے معصيت كاروں كا انجام 5; بنى اسرائيل كے گناہ گار 1،7; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخل ہونا 2
تحريف:
تحريف سے اجتناب 8; اوامر الہى كى تحريف 6; تحريف كا ظلم 6; تحريف كى سزا 6،7
حرام خوري:
حرام خورى كے نتائج 3
روايت: 12
ظلم :
ظلم كے نتائج 4; ظلم كے موارد 6،10
عذاب:
آسمانى عذاب 5،7; دنياوى عذاب 5،9; عذاب كے موجبات 6
فاسقين :
فاسقين كو دنياوى عذاب 9
فسق:
فسق كى سزا 7
گناہ:
گناہ كى بنياد3
گناہ گار لوگ:
گناہگاروں كو دنياوى عذاب 9گناہگاروں كو تنبيہ 9
نافرمان لوگ: 5
نافرماني:
نافرمانى كى بنياد3،4; نافرمانى كا ظلم 10; اللہ تعالى كى نافرمانى 3،4،10