تفسیر سورہ بقرہ ( آیات 37 تا 41 )
فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (37)
پھر آدم نے پروردگار سے كلمات كى تعليم حاصل كى اور ان كى بركت سے خدا نے ان كى توبہ قبولى كرلى كہ وہ توبہ قبول كرنے والا اور مہربان ہے_
1_ حضرت ادم (ع) اپنے كيئے پر پشيمان ہوئے اور اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے لئے رجوع كيا_
من ربہ كلمات
2_اللہ تعالى نے انتہائي قدرو قيمت والے كلمات حضرت ادم (ع) كو تعليم و تلقين فرمائے تا كہ ان كے واسطے سے اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كريں_
فتلقى ادم من ربہ كلمات
''تلقى ''كا مصدر ''تلقى ''ہے جس كا معنى ہے لے لينا_لہذا اس جملے ''فتلقي ...'' كا معنى يوں بنتا ہے حضرت ادم (ع) نے اللہ تعالى كى جانب سے كلمات لے ليئے _كلمات كو نكرہ لانا ان كى عظمت وبلندى پر دلالت كرتا ہے _
3_حضرت ادم(ع) كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے كلمات حاصل كرنا حضرت ادم (ع) كے زمين پر قيام پذير ہونے كے بعد ہوا_ *
ولكم فى الارض مستقر ...فتلقى ادم من ربہ كلمات
يہ مفہوم ''فتلقى ''كي'' فاء ''سے استفادہ ہو تا ہے جو ترتيب كے معانى ديتا ہے_
4_ اللہ تعالى نے حضرت ادم (ع) كى توبہ قبول كى ،انكاگناہ معاف فرما ديا اور اپ (ع) پر اپنى رحمت نازل فرمائي _
فتاب عليہ انہ ہو التواب الرحيم
5_ اللہ تعالى توّاب (انتہائي زيادہ توبہ قبول كر نے والا ہے) اور رحيم (مہربان )ہے_
انہ ہو التوّاب الرحيم
6_اللہ انسان تعالى كى طرف سے گناہ كاروں كى توبہ قبول كرنا اس كى رحمت كا پر تو ہے_
فتاب عليہ انہ ہو التواب الرحيم
اللہ تعالى كى رحمت كو اس كے تو اب ہونے كے ساتھ ساتھ ملاحظہ كيا جاسكتا ہے يعنى اللہ تعالى كے توبہ قبول كرنے كاسرچشمہ اسكى رحمت ہے يا يہ رحمت اس اعتبار سے ہے كہ حضرت ادم (ع) كو اللہ تعالى نے كلمات تعليم فرمائے مذكورہ بالا مفہوم پہلے اعتبار كے مطابق ہے_
7_ حضرت ادم (ع) كو كلمات كى تلقين و تعليم (اللہ تعالى كى بارگاہ ميں كس طرح توبہ كى جائے اور اس كى بارگاہ اقدس ميں نياز حاصل كيا جائے ) خدا وند
136
قدوس كى رحمت كا حضرت ادم (ع) پر ايك جلوہ تھا_
فتلقى ادم من ربہ كلمات ... انہ ھو التواب الرحيم
يہاں ''الرحيم'' كا جملہ ''فتلقى ...'' كے ساتھ ارتباط كے عنوان سے معنى بيان ہوا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ تعالى كى رحمت اس بات كا موجب بنى كہ حضرت ادم (ع) كو كلمات كى تعليم دى جائے_
8_اللہ تعالى كى بارگاہ ميںتوبہ اوراس سے گناہوں كى معافى طلب كرناضرورى ہے_
فتلقى ادم من ربہ كلمات ... انہ ھو التواب الرحيم
اولين انسان ہونے كے ناطے حضرت ادم (ع) كى توبہ كامسئلہ پيش كرنا گويااس كامقصد يہ تھاكہ انسان جب لغزش يا گناہ ميںمبتلاہو تواس كا فريضہ بيان كياجائے_
9_توبہ كيسے كى جائے اوراس كے لئے لازم وضرورى واسطے كيسے تلاش كئے جائيں ، يہ واسطے كيسے ہوں يہ سب كچھ دين سے سيكھنا چاہئے_
فتلقى ادم من ربہ كلمات فتاب عليہ
مذكورہ بالا مفہوم اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ادم (ع) كى توبہ كى قبوليت(تاب عليہ)كو فاء تفريع كے ساتھ اللہ كى جانب سے كلمات سيكھنے كے بعد استعمال كيا گيا ہے_
10_ توبہ كى قبوليت اور اللہ تعالى كى رحمت كا يقين گناہگار انسان كو توبہ اور طلب مغفرت كى طرف راغب كرتا ہے_
فتاب عليہ انہ ھو التواب الرحيم
توبہ كى قبوليت كے لئے حرف تاكيد ''انّ''كے استعمال، ضمير فصل ''ھو'' اورصيغہ مبالغہ ''توّاب''كے استعمال سے يہ مطلب اخذہوتا ہے كہ گناہگار وں كو طلب مغفرت كى ترغيب دلائي گئي ہے_
11 _ ابن عباس كہتے ہيں:''سألت رسول الله عن الكلمات التى تلقيہا آدم من ربہ فتاب عليہ قال سأل بحق محمدوعلى و فاطمة و الحسن والحسين الا تبت عليّ فتاب عليہ'' (1) ميں نے رسول اللہ(ص) سے ان كلمات كے بارے ميں سوال كيا جو حضرت آدم (ع) نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے اور اللہ نے ان كى توبہ قبول فرمائي حضرت (ص) نے ارشاد فرمايا حضرت آدم (ع) نے اللہ تعالى كو محمد (ص) ، على (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسين (ع) كے واسطے سے پكار ا اور عرض كيا يا اللہ ميرى توبہ قبول فرما تو اللہ تعالى نے حضرت آدم (ع) كى توبہ قبول كى _
12 _ امام باقر (ع) سے روايت ہے آپ (ع) نے ارشاد فرمايا : ''الكلمات التى تلقيہن آدم من ربہ فتاب عليہ و ہدى قال سبحانك اللہم و بحمدك انى عملت سوء اً و ظلمت نفسى فاغفر لى انك خير الغافرين ... انك انت الغفور الرحيم (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) الدرالمنثور ج/ 1 ص 147 ، نورالثقلين ج/ 1 ص 67 ح 143 ،145 ، 147 _
2) تفسير عياشى ج/ 1 ص 41 ح 25 ، تفسير برہان ج/ 1 ص 87 ح 8 _
137
وہ كلمات جو حضرت آدم (ع) نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے پس اللہ نے حضرت آدم (ع) كى توبہ قبول فرمائي اور حضرت آدم (ع) كى ہدايت فرمائي ( وہ كلمات يہ تھے) كہا اے اللہ تيرى ذات پاك ہے اور تيرى حمد بجالاتاہوں بے شك ميں نے برا عمل انجام ديا اور اپنے اوپر ظلم كيا پس تو مجھے بخش دے بے شك تو بہترين بخشنے والا ہے ... بتحقيق تو بخشنے والا اور رحيم ہے _
13_ امام صادق (ع) سے روايت ہے '' ان اللہ تبارك و تعالى لما اراد ان يتوب على آدم ارسل اليہ جبرئيل فقال لہ ... ان اللہ تبارك و تعالى بعثنى اليك لا علمك المناسك التى يريد ان يتوب عليك بہا ... ففعل ذالك آدم (ع) ... فقال لہ جبرئيل ان اللہ تبارك و تعالى قد غفرلك و قبل توبتك ... (1)
جب اللہ تعالى نے ارادہ فرمايا كہ آدم (ع) كى توبہ قبول فرمائے تو حضرت جبرئيل (ع) كو آپ (ع) كى طرف بھيجا جبرائيل (ع) نے آپ (ع) سے كہا ... اللہ تعالى نے مجھے آپ (ع) كى طرف بھيجا ہے تا كہ آپ (ع) كو مناسك (حج) كى تعليم دوں اور اللہ تعالى چاہتاہے كہ مناسك كى وجہ سے آپ (ع) كى توبہ كو قبول فرمائے ... پس حضرت آدم (ع) نے مناسك كو انجام ديا ... پس جبرائيل (ع) نے آپ (ع) سے كہا كہ بے شك اللہ تبارك و تعالى نے آپ (ع) كو بخش ديا ہے اور آپ (ع) كى توبہ قبول فرمالى ہے _
--------------------------------------------------
استغفار ( طلب مغفرت):
طلب مغفرت كى اہميت 8; طلب مغفرت كى بنياد10
اسماء اور صفات:
توّاب 5; رحيم 5
اللہ تعالى :
اللہ تعالى كى بخشش 4; اللہ تعالى كى توبہ 10; اللہ تعالى كى رحمت 4،10; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر 6،7
اہل بيت (ع) :
اہل بيت (ع) كے فضائل 11
ايمان:
رحمت خدا پر ايمان كے اثرات و نتائج10
بخشش:
بخشش كى درخواست 8
ترغيب :
ترغيب كے عوامل 10
توبہ :
توبہ كے آداب 2،7،9; توبہ كى اہميت 8; توبہ ميں توسل 2; توبہ كا سرچشمہ 10; توبہ كى قبوليت 6
جہان بينى (نظريہ كائنات):
--------------------------------------------------------------------------------
1) علل الشرائع ج / 1ص 400 ح/ 1 باب 141، نورالثقلين ج/ 1 ص 69 ح 152_
138
جہان بينى اورآئيڈيالوجى 10
حضرت آدم (ع) :
حضرت آدم (ع) كى بخشش 4،13; حضرت آدم (ع) كا طلب مغفرت كرنا 12; آدم (ع) كا زمين پر قيام و سكونت 3;حضرت آدم (ع) كو كلمات القاء كرنا 2،3، 7،11،12، 13;حضرت آدم (ع) كى پشيمانى 1;حضرت آدم (ع) كو توبہ كى تعليم دينا 2، 3، 7; حضرت آدم(ع) كى توبہ 1،2،11،12; آدم (ع) كى نافرماني1;حضرت آدم (ع) كى توبہ قبول ہونا 4 ، 13 ; حضرت آدم (ع) كا واقعہ
1،2،3،4،11; حضرت آدم (ع) كى توبہ كى جگہ 3
دين :
دين كى اہميت و كردار 9
رحمت الہى :
رحمت الہى جن لوگوں كے شامل حال ہوتى ہے4،7
روايت : 11، 12،13
قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (38)
اور ہم نے يہ بھى كہا كہ يہاں سے اتر پڑو پھر اگر ہمارى طرف سے ہدايت آجائے تو جو بھى اس كا اتباع كرلے گا اس كے لئے نہ كوئي خوف ہوگا نہ حزن _
1_ حضرت آدم (ع) و حوا (ع) كى نافرمانى كے بعد اللہ تعالى نے ان سے چاہا كہ بہشت سے نكل جائيں _
قلنا اہبطوا منہا
'' قلنا اہبطوا'' كے آيت 36 اور 38 ميں تكرار كے بارے ميں چند آراء كا ذكر ہوا ہے _ اس آيت ميں '' واو'' يا كوئي اور حرف عطف موجود نہيں ہے پس اس امر سے اس بات كى تقويت ہوتى ہے كہ اس آيت ميں '' قلنا اہبطوا '' آيت 36 ميں ''قلنا اھبطوا'' كے لئے تاكيد ہے _
2 _ شجرہ ممنوعہ سے حضرت آدم (ع) و حوا (ع) كے تناول كرنے سے ان كى نسل بھى ابتدائي بہشت سے محروم ہوگئي _
قلنا اہبطوا منہماجميعاً
''اہبطوا '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت آدم (ع) و حوا (ع) كے علاوہ بھى كوئي ايك يا زيادہ افراد مورد خطاب ہيں اس بارے ميں چند آراء كا اظہار ہوا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ دوسرے مخاطبين آدم (ع) و حوا(ع) كى نسل ہے _ مذكورہ بالا مفہوم
139
اسى رائے كے مطابق ہے _
3_ اللہ تعالى نے شيطان كو بھى بہشت سے نكال باہر كيا_*
قلنا اہبطوا منہا جميعاً
يہ مفہوم اس احتمال كى بناپر ہے كہ اگر ''اہبطوا'' كا حكم حضرت آدم (ع) و حوا(ع) كے علاوہ شيطان كو بھى شامل ہو_
4 _ حضرت آدم (ع) و حوا(ع) اور انكى نسل كو بہشت سے نكلتے ہوئے اللہ تعالى نے انكو اپنى جانب سے ہدايت اور راہنمائي سے بہرہ مند ہونے كى بشارت دى _
فاما ياتينكم منى ہدي
لفظ '' امّا'' ان شرطيہ اور ما زائدہ سے تركيب پايا ہے _ جملے ميں ايك طرف انْ شرطيہ اور دوسرى طرف ما زائدہ اور يا تينَّ ميں نون تاكيد سے اس كى تاكيد كرنا اس امر كا مقتضى ہے كہ جملے كا معنى يہ ہو '' اگر ميرى طرف سے ہدايت ملے كہ جو يقيناً آئے گى ...''
5 _ انسان كو سعادت كے حصول كى خاطر ہدايت اور الہى راہنمائي كى ضرورت ہے _
فاما ياتينكم منى ہديً
6 _ اللہ تعالى كى ہدايات و راہنمائي كى اتباع كرنے والوں كو قيامت كے روز كوئي خوف و خطر نہ ہوگا _
فمن تبع ہداى فلا خوف عليہم و لا ہم يحزنون
''خوف'' نكرہ استعمال ہوا ہے اور حرف نفى كے بعد واقع ہوا ہے جو معنى ميں عموميت پر دلالت كرتاہے گويا مطلب يوں ہے كسى قسم كا كوئي بھى خوف نہ ہوگا اسى طرح جب فعل منفى ہو تو تمام تر مصاديق كے نہ ہونے پر دلالت كرتاہے پس ''ولا ہم يحزنون'' سے مراد يہ ہے كہ كسى طرح كا بھى غم وا ندوہ نہ ہوگا_
7_ سرائے آخرت اديان كے پيروكاروں كےلئے ايك ايسى سرائے ہے جو خوف و پريشانى كے عوامل سے دور اور ہر طرح كے حزن و ملال آور واقعات سے امان ميں ہے _
فلا خوف عليہم و لا ہم يحزنون
بعد والى آيت جس ميں كفار كے لئے آخرت ميں پاداش كاذكر ہواہے اس كے قرينے سے كہا جاسكتاہے كہ اس آيت ميں اہل ہدايت كى آخرت ميں جزا كا ذكر كيا گيا ہے بنابريں '' فلا خوف ...'' كا تعلق عالم آخرت سے ہے _
8 _ گناہ كے وضعى نتائج اللہ تعالى كى جانب سے توبہ كى قبوليت كے باوجود رہتے ہيں _
فتاب عليہ ... قلنا اہبطوا منہا جميعاً فاما ياتينكم منى ہديً
حضرت آدم (ع) كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے اسكى قبوليت كے بعد بھى حضرت آدم (ع) كو ہبوط كا تاكيد سے حكم دينا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ حضرت آدم (ع) كى توبہ قبول ہونے كے باوجود انكو بہشت ميں دوبارہ ان كا مقام نہ مل سكا يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ گناہ كى معافى كا لازمہ اسكے وضعى نتائج كا خاتمہ نہيں ہے _
140
--------------------------------------------------
اديان :
اديان كے پيروكاروں كى آخرت ميں امنيت 7; اديان كے پيروكار قيامت ميں 7; اديان كے پيروكاروں كا اخروى سرور 7
اللہ تعالى :
افعال الہى 1،3; اللہ تعالى كى بشارتيں 4; ہدايت الہى 4،5
انسان:
انسان كى معنوى ضروريات5
توبہ :
توبہ كے نتائج 8
حضرت آدم (ع) :
آدم (ع) كى نافرمانى كے نتائج 2; حضرت آدم (ع) كا بہشت سے اخراج 1،4; نسل آدم (ع) كو بشارت 4; حضرت آدم (ع) كى نافرمانى 1; حضرت آدم (ع) كا واقعہ 4;حضرت آدم (ع) كا بہشت سے محروم ہونا 2; نسل آدم (ع) كا محروم ہونا 2; حضرت آدم (ع) كا ہبوط 1
حضرت حوا (ع) :
حوا(ع) كى نافرمانى كے نتائج 2; حوا(ع) كا بہشت سے اخراج 1،4; حضرت حوا(ع) كى نافرمانى 1; حضرت حوا(ع) كا واقعہ 4; حضرت حوا(ع) كا ہبوط 1
سعادت:
سعادت كے عوامل 5
شيطان :
شيطان كا بہشت سے اخراج 3; شيطان كا ہبوط 3
ضروريات :
ہدايت كى ضرورت 5
گناہ :
گناہ كے وضعى نتائج8
نافرماني:
نافرمانى كے نتائج 1
ہدايت يافتہ افراد:
اہل ہدايت كا آخرت ميں امن و امان 6; اہل ہدايت كا اخروى سرور 6; ہدايت يافتہ انسان قيامت ميں 6
141
وَالَّذِينَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (39)
جو لوگ كافر ہوگئے اور انھوں نے ہمارى نشانيوں كو جھٹلا ديا وہ جہنمى ہيں اور ہميشہ وہيں پڑے رہيں گے_
1 _ آيات الہى كا انكار اور تكذيب كرنے والوں كى سزا اور كيفر آتش جہنم ہے_
والذين كفروا و كذبوا باياتنا اولئك اصحاب النار
'' كذبوا'' كا مصدر تكذيب ہے جسكا معنى ہے جھوٹى نسبت دينا ہے '' باياتنا'' كذبوا كے علاوہ كفروا سے بھى متعلق ہے_ جملہ''الذين كفروا ...'' جملہ ''من تبع ...'' پر عطف ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ لوگ اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كو قبول كرنے والے نہيں _
2 _ آيات الہى كا كفر اختيار كرنے والے اور جھٹلانے والے ہميشہ كے لئے جہنم ميں رہيں گے _
اولئك اصحاب النارہم فيہا خالدون
3 _ دوزخ اور اسكى آگ دائمى اور ہميشہ رہنے والى ہے_
ہم فيہا خالدون
4 _ اللہ تعالى اپنى ہدايت و راہنمائي كو لوگوں كى طرف ايسے بھيجتاہے كہ اس ہدايت كے خدائي ہونے كى نشانى و علامت اسكے ہمراہ ہوتى ہے_
فاما ياتينكم منى ہدى ... الذين كفروا و كذبوا بآياتنا
''آيات'' جمع استعمال ہوا ہے اور اسكا معنى ہے نشانياں اور علامات_ لفظ '' ہديً'' اور ما قبل آيہ ميں لفظ '' ہداي'' دليل ہے كہ آيات سے مراد اللہ تعالى كى ہدايات او ر راہنمائي ہے _ ہدايت كو آيت سے تعبير كرنے كا معنى يہ ہے كہ اللہ تعالى اپنى ہدايت كو اس انداز سے پيش فرماتاہے كہ جس سے اسكى حقانيت آشكار ہو اور اسكا خدائي ہونا ثابت ہو_
--------------------------------------------------
آيات الہى :
آيات الہى كو جھٹلانے والوں كى سزا 1; آيات الہى كو جھٹلانے والے جہنم ميں 2
اللہ تعالى :
142
ہدايت الہى كى خصوصيات 4
اہل جہنم : 2
جہنم :
آتش جہنم 1; آتش جہنم كا ہميشہ رہنا 3; جہنم كا دائمى ہونا 3; جہنم ميں ہميشہ كے لئے رہنا 2
سزا :
سزا كى وجوہات 1، 2
عذاب :
اہل عذاب 1،2
كفار:
كفار جہنم ميں 2
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (40)
اے بنى اسرائيل ہمارى نعمتوں كو ياد كرو جو ہم نے تم پر نازل كى ہيں اور ہمارے عہد كو پورا كرو ہم تمھارے عہد كو پورا كريں گے اور ہم سے ڈرتے رہو_
1 _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو گراں قدر نعمتوں سے بہرہ مند فرمايا:
يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم
'' نعمت'' مفرد آياہے اس سے مراد خاص نعمت ہوسكتى ہے جيساكہ حضرت موسى (ع) كى بعثت اور ممكن ہے نعمت كى جنس يا صنف مراد ہو جس ميں متعدد نعمتيں شامل ہيں جن كا آيت 47 كے بعد والى آيات ميں ذكر ہوا ہے _ نعمت كى '' يائ'' متكلم كى طرف اضافت اس بات كى دليل ہے كہ يہ نعمت يا
نعمتيں بہت عظيم و باشرافت ہيں _
2 _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اسكى نعمتوںكو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھيں _
يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم
3 _ بنى اسرائيل قرآن كريم كے مخاطب قرار پائے اور ان كا فريضہ قرار ديا گيا كہ قرآن حكيم كى پيروى كريں _
يا بنى اسرائيل اذكروا
4 _ نزول قرآن كے زمانے تك بنى اسرائيل ايك قوم و
143
قبيلے كى شكل ميں تھے_
يا بنى اسرائيل اذكروا
حضرت اسحاق (ع) كے فرزند اور حضرت ابراہيم (ع) كے پوتے حضرت يعقوب (ع) كا ايك اور نام اسرائيل تھا يہ جو بنى اسرائيل ( فرزندان يعقوب (ع) ) كے عنوان سے ايك گروہ يا جماعت كى شكل ميں معروف تھے اور آنحضرت (ع) كے زمانے ميں بھى اسى نام سے جانے پہچانے جاتے تھے اس سے معلوم ہوتاہے كہ انہوں نے اپنے زمانہ آغاز سے اس زمانے تك اپنى قوميت كو محفوظ كر ركھا تھا اور قوم قبيلے كى صورت ميں رہتے تھے _
5 _ اللہ تعالى اور بنى اسرائيل كے ما بين متقابل عہد و پيمان كا وجود _
اوفوا بعہدى اوف بعہدكم
'' عہدي'' يعنى وہ عہد و پيمان جو اللہ تعالى نے لوگوں كے ذمے قرار ديا ہے _ '' عہدكم'' سے مراد وہ وعدے ہيں جو اللہ تعالى نے اپنے بندوں كو ديئے ہيں اور ان كى انجام دہى كو اپنے ليئے ضرورى قرار ديا ہے _
6 _ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے احكام و فرامين ميں سے ايك حكم يہ تھا كہ الہى وعدوں كو وفا كريں _
و اوفوا بعہدي
7_ پيامبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے زمانے كے بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان سے آگاہ تھے_
اوفوا بعہدى اوف بعہدكم
8_ اللہ تعالى كا وفائے عہد كرنا اس شرط كے ساتھ تھا كہ بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان كى پابندى كريں_
اوفوا بعہدى اوف بعہدكم
9_ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى نصيحتوں ميں سے ايك نصيحت يہ تھى كہ فقط خدا سے ڈريں اور اسكے غير سے خوف زدہ نہ ہوں _
و اياى فارہبون
''رہبہ'' كا معنى ڈرنا ہے _'' ارھبون'' ميں فعل امر ''ارہبوا'' اور نون وقايہ مكسور ہے جو اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ يہاں '' ياى متكلم'' محذوف ہے يعنى جملہ يوں ہے '' و اياى فارہبونى ''
10_ اللہ تعالى انسانوں كو نعمت عطا كرنيوالاہے _
نعمتى التى انعمت عليكم
11_ الہى نعمتوں كو ياد ركھنے كى ضرورت_
اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم
12 _ نعمتوں كو ياد كرنے اور ياد ركھنے كا ہدف اللہ كى ياد ميں رہنا اور نعمتوں كو اس كى جانب سے سمجھنا ہے _
اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم
''نعمت'' كى توصيف يوں كرنا كہ اللہ تعالى نے اسے عطا فرمايا ہے '' انعمت عليكم'' يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت دينے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے يعنى نعمت كو ياد كرنے كا لازمہ يہ ہو كہ ہر نعمت ميں خدا كو ديكھاجائے_
144
13 _ انسانوں كے ساتھ اللہ تعالى كے معاہدوں كى پابندى ضرورى ہے _
اوفوا بعہدي
14 _ انسانوں كے اس عہد كى وفا كرنا جو خداوند متعال كے ہاں ہے اس سے مشروط ہے كہ انسان الہى عہد و پيمان كو نبھائيں _
و اوفوا بعہدى اوف بعہدكم
15 _ خداوند متعال ہى اس مقام و عظمت كا مالك ہے جو شائستگى ركھتاہے كہ اسكى ہى ذات اقدس سے ڈراجائے _
و اياى فارہبون
16_ اللہ تعالى سے ڈرنا اور اس كے غير سے خوف نہ كھانا اس امر كا موجب بنتاہے كہ عہد الہى كى پابندى كى جائے_
اوفوا بعہدى ... و اياى فارہبون
17_ تاريخ سے آگاہى و واقفيت انسان كے لئے بہت كردار ساز ہوسكتى ہے _
يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم
گذشتہ نعمتوں كو ياد كرنا ايك طرح كى تاريخ سے واقفيت ہے جسكى پروردگار عالم نے نصيحت فرمائي ہے_ چونكہ اللہ تعالى كى نصيحتيں اور احكامات انسان كى تعمير ذات اور ہدايت كے لئے ہوتے ہيں اس اعتبار سے مذكورہ بالا مفہوم اخذ كيا گيا ہے_
--------------------------------------------------
اللہ تعالى :
اللہ تعالى سے مختص امور 15; اوامر الہى 2; اللہ تعالى كى نصيحتيں 6،9; عہد خدا كى وفا كى شرائط 8،14; عنايات الہى 10; عہد الہى 5، 7،8،13 ، 14; نعمات الہى 1،10
انسان :
انسانوں كے ساتھ خدا تعالى كا عہد 13،14; انسانوں كى ذمہ دارى 15
بنى اسرائيل :
بنى اسرائيل كى آگاہى 2; صدر اسلام كے بنى اسرائيل 7; بنى اسرائيل كى تاريخ 1،4; بنى اسرائيل كى معاشرتى شكل 4;بنى اسرائيل كا اللہ تعالى سے عہد و پيمان 5،8; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد 5، 7،8; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى 2،3،6،9; بنى اسرائيل كى نعمتيں 1،2
تاريخ :
تاريخ سے آگاہى كے نتائج 17; تاريخ كے فوائد17
تكليف ( شرعى ذمہ داري):
تكليف پر عمل كے عوامل 16
خوف:
خوف خدا كے آثارو نتائج 16; خوف خدا 9،15; غير خدا كا خوف 16
145
ذكر :
نعمت كے ذكر كى اہميت 11; ذكر خدا 12; نعمت كا ذكر 2، 12
رشد:
رشد كے عوامل 17
عہد:
وفائے عہد كے آثارو نتائج14; وفائے عہد كي
اہميت 13; وفائے عہد كے موجبات يا بنياديں 16; وفائے عہد 6
قرآن حكيم :
قرآن كى اتباع 3; قرآن حكيم اور بنى اسرائيل 3; قرآن كريم كے مخاطبين 3
نعمت:
نعمت كا سرچشمہ 10،12
وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (41)
ہم نے جو قرآن تمھارى تورات كى تصديق كے لئے بھيجا ہے اس پر ايمان لے آو اور سب سے پہلے كافر نہ بن جاؤ ہمارى آيتوں كو معمولى قيمت پر نہ بيچو اور ہم سے ڈرتے رہو_
1_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو قرآن كى تصديق اور اس پر ايمان لانے كى دعوت دى _
يا بنى اسرائيل ... و آمنوا بما انزلت
2 _ قرآن كريم كا نازل كرنے والا پروردگار عالم ہے _
و آمنوا بما انزلت
'' بما انزلت '' ميں ما موصولہ سے مراد قرآن حكيم ہے_
3 _ قرآن پر ايمان لانا اور اسكا انكار نہ كرنا اللہ تعالى كے بنى اسرائيل سے عہد و پيمان ميں سے تھا_
اوفوا بعہدى ... و آمنوا بما انزلت
4 _ قرآن حكيم بنى اسرائيل پر نازل ہونے والى آسمانى كتابوں ( تورات ، انجيل ...) كى حقانيت كى تصديق كرنے والا ہے_
آمنوا بما انزلت مصدقا لما معكم
146
''لما معكم'' ميں مائے موصولہ سے مراد بنى اسرائيل پر نازل ہونے والى آسمانى كتابيں ہيں جنكا واضح ترين مصداق تورات و انجيل ہيں _ ''مصدقاً'' كا مصدر تصديق ہے جسكا معنى ہے كسى شخص يا چيز كى طرف راستى و درستگى كى نسبت دينا _ پس '' مصدقا لما معكم'' كا معنى يہ بنتاہے قرآن تمھارى آسمانى كتابوں كو صحيح و درست جانتاہے اور ان كى حقانيت كى تصديق كرتاہے_
5 _ قرآن كريم كا خداوند متعال كى جانب سے نازل ہونا اس بات كى دليل ہے كہ سب كو اس پر ايمان لانا چاہيئے_
آمنوا بما انزلت
قرآن كى بجائے مائے موصولہ كو استعمال كرنا اور اسكى تشريح جملہ '' انزلت'' كے ساتھ كرنے كا ہدف اس حكم ( قرآن پر ايمان لانے )كى دليل بيان كرناہے گويا قرآن چونكہ خداوند متعال كى جانب سے نازل ہواہے پس اس پر ايمان لے آؤ_
6 _ قرآن حكيم تورات و انجيل كى حقانيت كى دليل ہے_*
مصدقاً لما معكم
قرآن كريم كا آسمانى كتابوں كى تائيد كرنے كا مفہوم يہ ہوسكتاہے قرآن كريم كا نازل ہونا اس بات كا موجب ہوا كہ ان كتابوں ميں قرآن كے آنے كے بارے ميں جو پيشين گوئياں ہوئي تھيں وہ پورى ہوچكى ہيں _ بنابريں نزول قرآن ان كتابوں كى راستى و درستگى كو پايہ ثبوت تك پہنچاتاہے_
7_اللہ تعالى نے بنى اسرائيل ( يہود و نصارى ) كو قرآن كريم كا انكار اور كفر كرنے سے متنبہ فرمايا_
ولا تكونوا اوّل كافر بہ
'' بہ '' كى ضمير ممكن ہے '' ما انزلت '' كى طرف لوٹتى ہو يا پھر '' ما معكم'' كى طرف، مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے _
8 _ قرآن كريم كے كفر و انكار كى صورت ميں بنى اسرائيل اللہ كى بارگاہ ميں انتہائي ناپسنديدہ اور منفور كفار ہوں گے _
و لا تكونوا اوّل كافر بہ
يہ مفہوم مندرجہ ذيل دو واضح امور كى بناپر ہے_
1_ جملہ '' ولا تكونوا ...'' ميں لفظ اول رتبے اور درجے كے اعتبار سے ہے نہ كہ زمانے كے اعتبار سے _
2 _ '' اوّل'' قيد توضيحى ہے نہ كہ احترازى پس ''ولا تكونوا ...'' كا مفہوم يہ ہوگا قرآن كا كفر اختيار نہ كرو ورنہ اس صورت ميں يہ كفر اولين درجے كا ہوگا_
9 _ قرآن كے انكار سے بنى اسرائيل اپنى آسمانى كتابوں كے كفر ميں بھى بڑھے ہوئے ہوں گے _
و لا تكونوا اوّل كافر بہ
يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' بہ '' كى ضمير ''ما معكم''كى طرف لوٹتى ہو_ بنابريںجملہ '' و لا تكونوا ...'' كا جملہ '' امنوا بما انزلت'' سے ارتباط ہونے كى صورت ميں معنى يہ بنتاہے _ اے بنى اسرائيل قرآن پر ايمان لے آؤاور ان اولين افراد ميں سے نہ بنو جنہوں نے اپنى آسمانى كتابوں كے بارے ميں كفر اختيار كيا گويا تم نے
147
قرآن كے انكار سے اپنى آسمانى كتابوں كا بھى انكار كرديا ہے_
10_ قرآن كريم كے انكار اور تورات و انجيل كے حقائق كے كفر سے يہود و نصارى كا ہدف متاع دنيا كا حصول تھا_
و لا تشتروا بآيا تى ثمناً قليلاً
''آياتى '' كا لفظ قرآن كے علاوہ تورات و انجيل ميں موجود حقائق كو بھى شامل ہے _ گويا '' بہ'' ضمير كى جگہ اسم ظاہر '' آياتي'' اسى مقصد كے لئے استعمال كيا گيا ہے _ قابل توجہ بات يہ ہے چونكہ قرآن كريم پر ايمان كے بارے ميں گفتگو ہے تو ''آياتي'' كا مورد نظر مصداق تورات و انجيل كے حقائق ہيں جو قرآن كريم كى حقانيت كى دليل ہيں_
11 _ قرآن كريم كے كفر و انكار كى طرف رجحان كے عوامل ميں سے ايك دنياوى مفادات كا حصول ہے _
و لا تشتروا بآياتى ثمنا قليلا
12 _ پروردگار عالمين كى عظمت و منزلت ہى اس لائق ہيں كہ اس كى ذات اقدس سے ڈراجائے اور اسى امر كا خيال ركھا جائے _
و ايّاى فاتقون
بہت واضح ہے كہ اللہ تعالى سے خوف كھانا اور اسكا خيال ركھنا اس كے عذاب اور سزا كے اعتبار سے ہے جسے اس نے خطاكاروں اور گناہ گاروں كے لئے مقرر فرماياہے_
13 _ قرآن كريم پر ايمان اور ديگر آسمانى كتابوں كے حقائق سے وابستہ رہنا اس بات كا سبب ہے كہ الہى عذاب سے محفوظ رہا جاسكے _
و ايّاى فاتقون
''اتقوا'' كا مصدر ''اتقائ'' ہے يعنى ايسے وسيلے يا ذريعے كو اختيار كرنا كہ اس سے انسان ان حوادث و مشكلات سے بچ سكے جن كے درپيش آنے كا خوف و خطر ہے _ پس '' فاتقون'' يعنى الہى عذاب سے بچنے كى خاطر كسى وسيلے كا اختيار كرنا _ ما قبل عبارت كى روشنى ميں يہ وسيلہ قرآن پر ايمان اور آسمانى كتابوں كے حقائق سے وابستگى ہے _
14_ دين فروشى عذاب و عقاب الہى ميں گرفتارى كا سبب ہے _
ولا تشتروا بآياتى ... و ايّاى فاتّقون
15 _ تورات و انجيل كے حقائق سے وابستگى اور قرآن پر ايمان كے نتائج ميں سے ايك بلاخوف و خطر ہوناہے اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے بنى اسرائيل كو كى گئي نصيحتوں ميں سے ايك تھى _
و لا تشتروا بآياتى ... و ايّاى فاتّقون
ايمان كو ضرورى قرار دينے اور دين فرشى سے بچنے كے بعد جملہ '' ايّاى فاتّقون'' ميں موجود حصر اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ممكن ہے قرآن پر ايمان اور تورات و انجيل كے حقائق سے وابستگى كى صورت ميں تمہيں اے يہود و نصارى ممكن ہے مشكلات كا سامنا كر نا پڑے توپس ان سے خوف زدہ نہ ہونا بلكہ فقط عذاب الہى سے ڈرنا _
16_ دين فروشى كے مقابل جو بھى قيمت و اجرت، جتنى
148
بھى زيادہ حاصل ہو حقير و ناچيز ہے _
ولا تشتروا بآياتى ثمنا قليلاً
'' قليلاً'' ، '' ثمنا''كے لئے توضيحى قيد ہے يعنى مراد يہ ہے كہ آيات الہى كو كھودينے كے مقابل جو قيمت بھى حاصل ہو بظاہر جتنى بھى زيادہ يا فراواں ہو بہت ناچيز ہے _
17 _ خداوند متعال كو نظر ميں ركھنا اور اسكے غير سے خوف نہ كھانا قرآن پر ايمان اور دين فروشى سے اجتناب كا باعث بنتاہے _
آمنوا بما انزلت ... و لا تشتروا بآياتى ثمنا قليلاً و اياى فاتقون
18_ امام باقر (ع) سے روايت ہے: '' ... كان حيى بن اخطب و كعب بن الاشرف و آخرون من اليہود لہم ماكلة على اليہود فى كل سنة فكرہوا بطلانہا بامرالنبى (ص) فحرفوا لذلك آيات من التوراة فيہا صفتہ و ذكرہ فذلك الثمن الذى اريد فى الآية (1)
حيى بن اخطب ، كعب بن اشرف اور بعض ديگر افراد يہوديوں سے كچھ سالانہ ماليات ( ٹيكس) وصول كرتے تھے _ پيامبر اسلام (ص) كى بعثت كے بعد يہ لوگ نہيں چاہتے تھے كہ اس ٹيكس سے محروم ہوجائيں لہذا انہوں نے تورات كى وہ آيات جن ميں رسول اسلام (ص) كا ذكر تھا ان ميں تحريف كردى يہ وہى قيمت ہے جسكا آيات ميں ذكر ہوا ہے _
--------------------------------------------------
آسمانى كتابيں :
كتب سماوى كى حقانيت 4; آسمانى كتب كے جھٹلائے جانے كا فلسفہ 10
اللہ تعالى :
اللہ تعالى سے مختص امور 12; افعال خداوندى 2; اوامر الہى 1; اللہ تعالى كى نصيحتيں 15; اللہ تعالى كے عذاب 13، 14 ; عہد الہى 3; اللہ تعالى كے نواہى 7
انجيل:
انجيل كى حقانيت كے دلائل 6
ايمان :
انجيل پر ايمان كے نتائج 15; تورات پر ايمان كے نتائج 15; قرآن پر ايمان كے نتائج 13،15; آسمانى كتابوں پر ايمان كے آثارو نتائج 13; قرآن كريم پر ايمان 1،3، 5; قرآن پر ايمان كے عوامل 17; ايمان كے متعلقات 1،3،5
بنى اسرائيل :
بنى اسرائيل اور قرآن 1،3،7،9; بنى اسرائيل اور آسمانى كتابيں 9; بنى اسرائيل كى سرزنش 8; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد 3; بنى اسرائيل كا كفر 9; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى 1،7،15
--------------------------------------------------------------------------------
1) مجمع البيان ج/ 1 ص 210 ، نورالثقلين ج/ 1 ص 73 ح 164
149
پيامبر اسلام (ص) :
پيامبر اسلام(ص) تورات ميں 18
تقوي:
تقوى كے آثارونتائج 17
تورات :
تورات كى تحريف 18 تورات كى حقانيت كے دلائل 6
خوف:
خوف خدا 12; غير خدا كا خوف 17; پسنديدہ خوف 12; ممنوع خوف 15
دنيا طلبي:
دنيا طلبى كے نتائج 11
دين :
دين كى آسيب شناسى 11
دين فروشي:
دين فروشى كے نتائج 14; دين فروشى كى قيمت 16; دين فروشى كے عوامل سے اجتناب 17
روايت : 18
عذاب:
عذاب سے بچاؤ كے عوامل 13; موجبات عذاب 14
عيسائي :
عيسائيوں كى دنيا طلبى 10; عيسائيوں كى ذمہ دارى 7; عيسائي اور انجيل 10; عيسائي اور تورات 10; عيسائي اور قرآن 7، 10
قرآن حكيم :
قرآن اور انجيل 4، 6; قرآن اور تورات 4،6; قرآن اور آسمانى كتابيں 4; قرآن كے نزول كا سرچشمہ 2،5; قرآن كى اہميت و كردار 6
كفار :
بدترين كفار 8
كفر:
قرآن كے انكار ( كفر) كے نتائج 8; قرآن كے كفر سے اجتناب 7; قرآن كے كفر كا فلسفہ 11; قرآن كا كفر 9; آسمانى كتابوں كا كفر 9
يہود:
يہوديوں كى دنيا طلبى 10; يہوديوں كى ذمہ دارى 7; يہودى اور انجيل 10; يہودى اور تورات 10; يہودى اور قرآن كريم 7،10