ماہ محرم الحرام کے اعمال
واضح ہوکہ محرم کا مہینہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیر وکا روں کے لیے رنج وغم کا مہینہ ہے ۔امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب ماہ محرم آتا تھا تو ہرکو ئی شخص والد بزرگوار امام موسی ٰکا ظم کوہنستے ہوئے نہ پاتاتھا ۔ آپ پر حزن وملال طاری رہاکرتا اور جب دسویں محرم کادن آہ وذاری کرتے اورفرماتے کہ آج وہ دن ہے جس میں امام حسین کوشہید کیاگیا تھا ۔
پہلی محر م کی رات
سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی چندنمازیں ذکر فرمائی ہیں :
۱۔ سو رکعت نماز کہ ہر رکعت میں سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھے :
۲۔ دو رکعت نماز کہ پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ انعام اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ یاسین پڑھے :
۳۔ دورکعت نماز کہ ہر رکعت میں سو رئہ الحمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھے :
روا یت ہوئی ہے کہ حضرت محمد نے فر ما یا کہ جو شخص اس را ت دورکعت نماز اداکرے اوراسکی صبح کوجوسا ل کاپہلادن ہے روزہ رکھے تو وہ اس شخص کے مانند ہوگا۔جوسال بھر تک اعمال خیر بجالاتارہا ۔وہ شخص اس سال محفوظ رہےگا اوراگراسے موت آجائے تو وہ بہشت میں داخل ہوجائے گا۔نیز سید نے محرم کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک طویل دعاء بھی نقل فرمائی ہے ۔
پہلی محر م کادن
یہ سال کا پہلا دن ہے اور اس کے لئے دوعمل بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔ روزہ رکھے اس ضمن میں ریان بن شبیب نے امام علی رضا سے روایت کی ہے ۔کہ جوشخص پہلی محر م کاروزہ رکھے اور خدا سے کچھ طلب کر ے تو وہ اس کی دعا ء قبو ل فرما ئے گا۔ جیسے حضرت زکر یا علیہ السلام کی دعاء قبو ل فر مائی تھی ۔
۲۔ امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ پہلی محرم کے دن دو رکعت نمازادا فرماتے اورنماز کے بعداپنے ہاتھ سو ئے آسما ن بلند کر کے دعاء پڑھتے تھے :
شیخ طوسی نے فرمایا کہ محرم کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے مگر یوم عاشورہ کو عصر تک کچھ نہ کھائے پئے اور بعد عصر تھوڑی سی خاک شفاکھالے سید نے پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی فضیلت لکھی اورفرمایاہے کہ اس مہینے کا روزے رکھنا انسان کوہر گنا ہ سے محفو ظ رکھتاہے ۔ سوائے یو م عاشو رہ کے کیو نکہ اس دن کا روزہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے ۔
تیسر ی محرم کا دن
یہ وہ دن ہے کہ جس میں حضرت یو سف قید خا نے سے آزاد ہو ئے تھے جو شخص اس دن کا رو زہ رکھے حق تعا لی اس کی مشکلات آسان فرما تااوراس کے غم دو ر کر دیتاہے ۔ حضرت رسو ل اللہ سے روایت ہوئی ہے کہ اس دن کاروزہ رکھنے والے کی دعا قبو ل کی جا تی ہے :
نو یں محرم کادن
یہ روز تا سو عاہے امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ ۹محرم کے دن فوج یزید نے امام حسین اوران کے انصار کاگھیراؤ کرکے لوگوں کوان کے قتل پرآمادہ کیا ابن مرجانہ اورعمر سعد اپنے لشکر کی کثرت پرخوش تھے اورامام حسین کوان کی فوج کی قلت کے با عث کمزور ضعیف سمجھ رہے تھے ۔انہیں یقین ہوگیاتھا کہ اب امام حسین کاکوئی یارومدد گارنہیں آسکتا اورعراق والے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کریں گے امام جعفر صادق نے یہ بھی فرمایا کہ اس غریب وضعیف یعنی امام حسین پر میرے والد بزرگوارفدادقربان ہو ں ۔
دسو یں محرم کی رات
یہ شب عاشو ر ہے سید نے اس رات کی بہت سی بافضیلت نماز یں اور دعائیں نقل فرمائی ہیں ان سے ایک سورکعت نماز ہے ۔جواس رات پڑھی جاتی ہے ۔ اس نمازکی ہر رکعت میں سو رہ الحمد کے بعد تین مر تبہ سو رہ تو حید پڑھے اور نماز سے فارغ ہو نے کے بعد ستر مر تبہ کہے :
سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حو ل ولا قوةالا با اللہ العلی العظیم
پاک ترہے اللہ حمد اللہ ہی کے لیے ہے نہیں کوئی معبودسوائے اللہ کے اللہ بزرگ تر ہے اور نہیں ہے کوئی حرکت وقوت مگر وہی جو خدا بلند وبرترسے ملتی ہے
بعض روایات میں ہے کہ العلی العظیم کے بعد استغفار بھی پڑھے اس رات کے آخری حصے میں چار رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت مین سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ آیتہ الکرسی دس مرتبہ سورہ توحید دس مرتبہ سورہ فلق اور دس مرتبہ سورہ ناس کی قرائت کر لے اور بعد از سلام سو مرتبہ سورہ توحید پڑھے:
آج کی را ت چا ر رکعت نماز ادا کرے کہ ہر رکعت میں سورہ الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورہ توحید پڑھے یہ وہی نماز امیر المومنین ہے کہ جس کی بہت ذیادہ فضیلت بیان کی گی ہے اس نماز کے بعد زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کرے حضرت رسول پر صلوات بھیجے اور ان کے دشمنوں پر بہت لعنت کرے ۔اس را ت میں بیداری کی فضیلت میں روا یت ہوئی ہے کہ اس رات کا جاگنے والا مثل اس کے ہے کہ جس نے تمام ملائکہ جتنی عبادت کی ہو ۔اس رات میں کی گی عبادت ستر سال کی عبادت کے برابرہے ۔
اگر کسی شخص کے لیے ممکن ہو تو آج رات اسے زمین کر بلا میں رہنا چاہیے جہاں وہ امام حسین کے روضہ اقدس کی زیارت کرے اور حضرت کے قرب میں شب بیداری کرے تاکہ حق تعالیٰ اس کو امام حسین کے ان ساتھیوں میں شمار کرے جو اپنے خون میں لتھڑے ہوئے تھے ۔
دسویں محرم کادن
یہ یوم عاشورہ ہے امام حسین کی شہا دت کادن ہے ۔یہ آئمہ طاہرین اور ان کے پیروکاروں کیلئے مصیبت کا دن ہے اورحزن وملال میں رہنے کادن ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ امام علی کے چاہنے والوں اور ان کی اتباع کرنے والے مومن مسلمان آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ہو ں اورگھر کیلئے کچھ نہ کما ئیں بلکہ نو حہ و ماتم اورنالہ وبکامیں لگے رہیں ۔امام حسین کیلئے مجا لس بر پا کر یں اوراس طرح ماتم وسینہ کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پرماتم کیاکرتے ہیں آج کے دن امام حسین کی زیارت عاشور پڑھیں جوتیسرے باب میں آئے گی حضرت کے قاتلوں پر بہت بہت لعنت کریں اور ایک دوسرے کوامام حسین کی مصیبت پران الفاظ میں پرسہ دیں :
اعظم اللہ اجورنابمصابنا بالحسین علیہ السلام و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من ال محمد علیہم السلام
اللہ زیادہ کرے ہمارے اجر وثواب کو اسپر جوکچھ ہم امام حسین کی سوگواری میں کر تے ہیں اور ہمیں اور تمھں امام حسین کے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مہدی کے ہم رکاب ہو کر کہ جو آل محمد علیہم السلا م میں سے ہے
ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسین کی مجلس اور واقعات شہادت کو پڑھیں۔خودروئیں اور دوسروں کو رلائیں رو ایت میں ہے۔ جب حضرت مو سی ٰکو حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنے اوران سے تعلیم حاصل کرنیکا حکم ہوا توسب سے پہلی با ت کہ جس پر انکے درمیان مذکرہ ومکالمہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسی ٰ کے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد پر آنا تھاپھر ان دو نوں بز رگواروں نے ا ن مصائب پر بہت گر یہ وبکا کیا ۔
ابن عباس سے روا یت ہے کہ انہو ں نے کہا :میں مقا م میں ذی قا ر میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حضو ر گیا تو آپ نے ایک کتا بچہ نکا لاجو آپ کا لکھا ہو ا تھا اور حضرت رسو ل اللہ کا لکھوایاہو اتھا #آپ نے اس کا کچھ حصہ میرے سامنے پڑھا ۔اس میں امام حسین کی شہادت کا ذکر اس طرح تھا کہ شہادت کس طرح ہوگی اور کون آپ کو شہید کرے گا کون کون آپ کی مدد ونصرت کرے گااور کون کون آپ کے ہمرکاب رہ کر شہید ہو گا یہ ذکر پڑھ کر خود بھی امیر المو منین نے یہ گریہ کیااور مجھ کو بھی خوب رلایا ۔مئولف کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں اتنی گنجائش ہوتی تو میں یہاں امام حسین کے کچھ مصائب کرتا ۔لیکن موضو ع کے لحاظ سے اس میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذاقارئین میری کتب مقاتل کی طرف رجوع کریں۔
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص آج کے دن امام حسین کے روضئہ اقدس کے نزدیک رہ کر لوگوں کو پانی پلاتا رہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا ۔جس نے حضرت کے لشکر کو پانی پلایا ہو اور آپ کے ہمرکاب کربلا میں موجود رہا ہو آج کے دن ہزار مرتبہ سورہ توحید پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے جیساکہ روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے شخص پر نظر رحمت فر ماتا ہے سید نے آج کے دن ایک دعاء پڑھنے کی تا کید کی ہے جو عثرات کی مثل ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق وہ دعاء عثرات ہی ہے۔ شیخ نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ یوم عاشور کو چاشت کے وقت چار رکعت نماز اور دعاء پڑھنا چاہیے کہ جسے ہم نے اختصارکے پیش نظرترک کردیاہے پس جو شخص اسے پڑھنا چاہتا ہو وہ زاد المعادمیں ملاحظہ کرے یہ بھی ضروری اور مناسب ہے کہ شیعہ مسلمان آج کے دن امساک کریں یعنی کچھ کھائیں پیئں نہیں مگر روزے کا قصد بھی نہ کریں اور عصر کے بعد ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ لوگ کھاتے ہیں۔مثلا دودھ یا دہی وغیرہ نیزآج کے دن قمیضوں کے گر یبان کھلے رکھیں اور آستینیں چڑھا کر ان لو گوں کی طرح رہیں جو مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں یعنی مصیبت زدہ لوگوں جیسی شکل بنائے رہیں ۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ نویں اوردسویں محرم کاروزہ نہ رکھے کہ بنی امیہ اوران کے پیرو کا ر ان دو دنوں کو بڑے بابرکت تصور کرتے ہیں ۔شہادت حسین پر طعن کر تے اور ان دنو ں میں روزہ رکھتے تھے ۔انہوں نے بہت سی وضعی حدیثیں حضرت رسو ل لله کی طرف منسو ب کرکے یہ ظاہر کیا کہ ان دودنوں کاروزہ رکھنے میں بڑا ثو اب ہے ۔حالانکہ اہل بیت سے مروی کثیرحدیثیوں میں ان دودنوں اورخاص کریوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت آئی ہے بنی امیہ اور ان کی پیر وی کر نے والے لوگ بر کت کے خیا ل سے عاشورہ کے دن سال بھر کا خرچہ جمع کرکے رکھ لیتے تھے اسی بنا ء پر امام علی رضا سے منقول ہے کہ جوشخص یوم عاشور اپنا دنیاوی کارو با رچھو ڑے رہے تو حق تعا لی اسکے دنیا و آخرت سب کا مو ں کو انجام تک پہنچادے گا جو شخص یو م عاشور کو گر یہ و زاری اور رنج میں گزارے تو خدا تعالی قیامت کے دن کو اس کے لیے خوشی و مسرت کادن قرار دے گا اور اس شخص کی آنکھیں جنت میں ہم اہل بیت کے دیدا ر سے روشن ہوں گی ۔مگر جو لوگ یوم عاشور کو بر کت والا دن تصور کر یں اور اس دن اپنے گھر میں سال بھر کاخرچ لاکر رکھیں تو خق تعالی ان کی فراہم کی ہو ئی اس جنس ومال کو ان کے لیے با بر کت نہ کرے گا اورایسے لو گ قیامت کے دن یزید بن معاویہ عبید اللہ بن زیاد اور عمروبن سعد ایسے ملعون عذا بیوں کے سا تھ محشو ر ہو گا اس لیے یو م عا شو ر میں کسی انسان کو دنیا کے دھندے میں نہ پڑنا چاہیے اور اس کی بجائے گر یہ وزاری نو حہ وما تم اوررنج وغم میں مشغو ل رہنا چاہیے ۔ نیز اپنے اہل وعیا ل کوبھی آمادہ کر ے کہ وہ سینہ زنی وما تم میں اس طرح مشغو ل ہوں جیسے اپنے کسی رشتہ دار کی موت پرہواکرتے ہیں۔
آج کے دن روز ے کی نیت کے بغیر کھا ناپینا تر ک کیے رہیں اور عصرکے بعد تھو ڑے سے پا نی وغیر ہ سے فا قہ شکنی کریں ۔ اوردن کے تما م ہو نے تک فاقہ سے نہ رہیں آج کے دن گھرمیں سا ل بھر کے لیے غلہ وجنس جمع نہ کر ے آج کے دن ہنسنے سے پر ہیز کرے اور کھیل کو د میں ہرگزمشغول نہ ہو اور امام حسین کے قاتلو ں پر ان الفاظ میں لعنت کرے:
اللھم العن قتلۃ الحسین علیہ السلام
اے اللہ امام حسین کے قاتلوں پر لعنت کر
مولف کہتے ہیں :اس حدیث سے ظاہرہوتا ہے کہ یوم عا شورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں جو حدیثیں آئیں وہ سب جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کو جھوٹوں جھو ٹ حضرت رسول کی طرف منسوب کیا گیا ہے :
اللھم ان ھذایوم تبرکت بہ بنو امیہ
اے اللہ!یہ وہ دن ہے جسکو بنو امیہ نے با برکت قراردیا
صاحبان شفا ء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اسکی تشریح فرمائی ہے جس کا خلا صہ یہ ہے کہ بنو امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوہات کی بنا پر با برکت تصور کرتے تھے :
۱۔ بنو امیہ نے آج کے دن آئندہ سال کے لیے غلہ وجنس جمع کر رکھنے کومستحب جانا اوراس کو وسعت رزق اور خوش حآلی کا سبب قرار دیا چنانچہ اہل بیت کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی بار بار تردید اور مذمت کی گئی ہے ۔
۲۔ بنو امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے جیسے اہل وعیال کے لیے عمدہ لباس اور خورا ک فر اہم کرناایک دوسرے سے ملن ااور حجا مت بنو انا وغیر ہ لہذا یہ امور ان کے پیر وکا روں میں عام طور پر رائج ہو گئے۔
۳۔ انہو ں نے آج دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیر ا ہوئے۔
۴۔ انہوں نے عاشو رہ کے دن دعاء کرنے اور اپنی حاجا ت طلب کرنے کو مستحب ٹھرا یا اس لیے اس سے متعلق بہت سے فضائل اور منا قب گھڑ لیے ۔ نیز آج کے دن پڑھنے کے لیے بہت سی دعا ئیں بنا ئیں اور انہیں عام کیا تا کہ لو گو ں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے ۔ چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شہر وں میں منبر وں پر جو خطبے دیتے ۔ان میں یہ بیان ہو ا کر تا تھا کہ آج کے دن ہر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضا فہ ہو ا ہے مثلا نمر ود کی آگ بجھ گئی حصرت نو ح کی کشتی کنا رے لگی فرعون کا لشکر غرق ہوا اور حضرت عیسی ٰکو یہو دیو ں کے چنگل سے نجا ت حا صل ہوئی ۔یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئے ۔تاہم ان کا یہ کہنا سفید جھو ٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس بارے میں شیخ صدوق جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمارسے سناہے کہ وہ کہتے تھے خداکی قسم !یہ امت اپنے نبی کے فر زند کو دسو یں محرم کے دن شہید کرے گی اورخد ا کے دشمن اس دن کوبابرکت دن تصور کریں گے ، یہ سب کا م ہو کر ہی رہے گااوریہ با تیں اللہ کے علم میں آچکی ہیں ۔یہ با ت تجھے اس عہد کے زریعے سے معلوم ہے جو مجھ کو امیر المو منین کی طرف سے ملا ہے جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم تما ر سے عر ض کی کہ وہ لوگ امام حسین کے رو زشہادتکو کس طرح ب ابر کت قر ار دیں گے ؟تب میثم تمار رو پڑے اور کہاکہ لو گ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں یہ کہیں گے کہ آج کادن ہی وہ دن ہے کہ جب حق تعالی ٰ نے حضرت آدم کی تو بہ قبول فر مائی ۔ حالانکہ خدائے تعالی ٰ نے ان کی توبہ ذ ی ا حجہ میں قبو ل فر ما ئی وہ کہیں گے آج کے دن ہی خدا وند کر یم نے حضرت یونس کومچھلی کے پیٹ سے با ہر نکالا -حالانکہ اللہ تعالی ٰ نے ان کو ذی القعدہ میں شکم ما ہی سے نکا لاتھاوہ تصو ر کر یں گے کہ آج کے دن حضرت نو ح کی کشتی جو دی پر رکی جبکہ کشتی ۱۸ذی الحجہ کو رکی تھی وہ کہیں گے کہ آج کے دن ہی حق تعالے ٰنے حضرت مو سی ٰ کے لیے دریا کوچیر احالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ہو اتھا۔
خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس رو ایت میں مذکو ر یہ تصر یحا ت جو کہ اصل میں نبوت ومامت کی علامات ہیں اورشیعہ مسلمانوں کے بر سر حق ہونے کی روشن دلیل ہیں ۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے ۔ جو ہو چکی ہیں اور ہورہی ہیں ۔پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لو گوں نے اپنے وہم و گمان کی بناء پر قرار دی ہو ئی چھو ٹی با توں کے مطا بق دعا ئیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخا ص کی کتابو ں میں درج ہے کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا ان کتابوں کے زریعے سے دعائیں عوام کے ہا تھو ں میں پہنچ گئی ہیں لیکن ان دعاؤ ں کا پڑھنا بدعت ہو نے کے علا وہ حرام بھی ہے ان بدعت وحرام ہے
یوم عاشو ر کے آخر وقت کھڑا ہو جائے اور حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیر المومنین علی المر تضی علیہ السلا م جنا ب فاطمتہ الزہرا علیہ السلام امام حسن مجتبٰی علیہ السلام اورباقی ائمہ علیہم السلا م جو اولادحسین علیہم السلام میں سے ہیں ان سب پر سلام بھیجے اور گریہ کی حالت میں ان کو پرسہ دے اور یہ زیا رت پڑھے :
السلام علیک یاوارث ادم صفوة اللہ السلام علیک
سلام ہو آپ پر اے آدم کے وارث جو بر گزیدہ خداہیں سلام ہو آپ پر
یاوارث نوح نبی اللہ السلام علیک یا وارث
اے نوح کے وارث جو اللہ کے نبی ہیں سلا م ہو آپ پر اے ابر اہیم کے وارث
ابراہیم خلیل اللہ السلام علیک یا وارث موسی
جو اللہ کے دوست ہیں سلام ہو آپ پر اے مو سی ٰ کے وارث جو
کلیم اللہ السلام علیک یاوارث عیسی ٰروح اللہ
خد اکے کلیم ہیں سلام ہو آپ پر اے عیسی ٰ کے وارث جو خدا کی رو ح ہیں
السلام علیک یاوارث محمد حبیب اللہ السلام
سلام ہو آپ پر اے محمد کے وارث جو خد اکے حبیب ہیں سلام ہو پر
علیک یا وارث علی امیر المومنین ولی اللہ
آپ پر اے علی کے وارث جو مو منوں کے امیر اور دوست خدا ہیں
السلام علیک یا وارث الحسن الشہید سبط
سلام ہو آپ پر اے حسن کے وا رث جو شہید ہیں
رسول اللہ السلام علیک یا بن رسول اللہ السلام
سلا م ہو ا آپ پر اللہ کے رسول کے فرزند سلام ہو آپ پر
علیک یابن البشیر النذیر و ابن سید الوصیین
اے بشیر و نز یر اور وصیوں کے سر دار
السلام علیک یا بن فاطمۃ سیدة نساء العالمین
کے فرزند سلام ہو آپ پر اے فرزند فاطمہ جو
ا لسلام علیک یا ابا عبد اللہ السلام علیک
جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں سلام ہو آپ پر اے ابو عبد اللہ سلام ہو
یاخیرةاللہ وابن خیرتہ السلام علیک یا ثار
اے خدا کے پسند یدہ کیے ہو ئے او ر پسند یدہ کے فر زند سلام ہو آپ پر اے شہید
اللہ وابن ثارہ السلام علیک ایہا الوتر الموتور
راہ خدا اورشہید کے فر زند سلام ہو آپ پر اے وہ مقتو ل جس کے قاتل قتل ہو گئے ۔
السلام علیک ایہاالامام الہادی الزکی و علی ارواح
سلام ہو آپ پراے ہدایت و پاکیزگی والے امام اورسلام ہو ان روحوں پرجو
حلت بفنائک و اقامت فی جوارک و وفدت مع
آپ کے آستاں پر سوگئیں اور آپ کی قربت میں رہی ہیں اور
زوارک السلام علیک منی مابقیت و بقی الیل والنھار
سلام ان پرجوآپ کے زائروں کے ہمراہ آئیں میراسلام ہو آپ پر جب تک زندہ ہوں اور رات دن