توحيد
يہ ايک جامع عنوان ھے جس کے تحت حسب ذيل حقيقتيں مضمر ھيں :
(۱) حدوث عالم ۔ يعني دنيا اور اُس کي ھر چيز نابود تھي ۔ ھوا ، پاني ، آگ ، چاند ، سورج اور سيارے ۔کوئي بھي ايسي چيز نھيں جو ھميشہ موجود ھو اور وہ چھوٹے چھوٹے ذرے بھي جن سے اس تمام دنيا ميں مختلف شکليں نمودار ھوتي ھيں وہ بھي قديم يعني ھميشہ سے موجود نھيں ھو سکتے ، اس لئے کہ اُن ميں حرکت موجود ھے اور حرکت کا ھونا خود زوال اور تغيّر کي نشاني ھے ۔
(۲) خالق کا وجود ۔ جب يہ تمام کائنات ھميشہ سے وجود نھيں رکھتي تو ضرور اُ سکا کوئي وجود ميں لانے والا ھے ۔ اُسي کو خالق کھتے ھيں ۔
(۳) خالق کُل وہ ھے جو سراسر ” ھستي “ ھے اس لئے وہ ھميشہ سے ھے اور ھميشہ رھے گا ۔ اگر ايسا نہ ھو تو پھر وہ بھي اِسي دنيا کا جزوھوگا اور اُس کے لئے بھي کسي پيدا کرنے والے کي ضرورت ھوگي ۔
(۴) خالق نے اس دنيا کو ارادہ و اختيار کے ساتھ پيدا کيا ھے اس لئے کہ اُس کي پيدا کي ھوئي مخلوق ميں حکمتيں اور مصلحتيں مضمر ھيں اور ايک خاص انتظام نظر آتا ھے جو کسي بے شعور اور بے حس قوت کا نتيجہ نھيں ھو سکتا ۔
(۵) کمال ذات از صفات ۔ يعني خدا کو سراسر ” ھستي “ ماننے ھي کا نتيجہ ھے کہ اُس کي ذات ھر حيثيت سے کامل ھو کيونکہ نقائص اور خرابياں سب ” نيستي “ کے پھلوسے پيدا ھوتي ھيں اور خدا کي ذات ميں نيستي کا گزر نھيں ۔ تمام صفات ثبوتيہ و سلبيہ کا خلاصہ اتنا ھي ھے ۔ نہ يہ کہ اُس ميں علاوہ ذات کے نو صفتيں ھوں اور خدا ذات اور صفات کے مجموعہ کا نام ھو جس طرح عيسائي اُسے ايک ھوتے ھوئے تين مانتے ھيں ۔ يہ تصور توحيد خالق کے خلاف ھے اور تعليم اھلبيت (ع) کے لحاظ سے درست نھيں ھے ۔
صفات ثبوتيہ
کمال ذات کے تقاضوںکوصفات ثبوتيہ کھا جاتا ھے ۔
۱۔ قديم :يعني ھميشہ سے ھے اور ھميشہ رھے گا ۔ يہ کوئي اُس کي ذات سے جدا گانہ صفت نھيں ھے بلکہ اُس کے سراسر ” ھستي “ ھونے ھي کا تقاضا ھے کہ وہ ” واجب الوجود “ ھو يعني اُس کي ذات کے لئے ”نيستي “ ممکن ھي نہ ھو اور جو واجب الوجود ھواسي کو اصطلاحي معني کے لحاظ سے قديم کھتے ھيں کيونکہ ” حادث “ وہ ھوتا ھے جو ” نيستي “ کے بعد ” ھست “ ھوا ھوا وريہ وھي ھو گا جس کي ذات سے ” ھستي “ الگ ھو مگر جھاں ” ھستي “ ذات سے جدا ھي نہ ھو ، اس ميں نيستي کا شائبہ کھاں ممکن ھے لھذا اُسے يھي ماننا پڑے گا کہ وہ ھميشہ سے ھے اور ھميشہ رھے گا ۔
۲۔ قادر: يعني ھر چيز پر قابو رکھتا ھے اور کسي امر ميں بے بس نھيںھے کيونکہ عاجزي نقص ھے اور يہ بات معلوم ھو چکي ھے کہ اُ س کي ذات کامل ھي کامل ھے، ناقص نھيں ھے ۔ بے شک محال اور غير ممکن چيزوں ميں يہ صلاحيت نھيں ھے کہ اُ ن سے خدا کي قدرت کا تعلق ھو ليکن اس سے خدا کي ذات ميں کوئي نقص لازم نھيں آتا ۔
۳۔ عالم: يعني وہ ھر شے کا جاننے والا ھے اس لئے کہ جھالت نقص ھے اور خدا کي ذات ھر نقص سے بري ھے ۔
چھوٹي چھوٹي چيز اور چھوٹي سے چھوٹي بات خدا وند عالم کے علم ميں ھے ۔ يعني وہ حاضر و ناظر ھے ۔ اُس کے علم ميں کبھي تغير نھيں ھوتا اور يہ ممکن نھيں کہ وہ کسي امر کو پھلے نہ جانتا ھو پھر اس سے واقف ھو اسي لئے اس کے افعال ميں ندامت اور پشيماني کا گزر نھيں ھے ۔
۴۔حي: وہ قدرت اور علم کا مالک ھے ۔ اسي اعتبار سے کھا جاتا ھے کہ وہ زندہ حي ھے ۔
۵۔مدرک: اُ س کے صفات ثبوتيہ ميں مُدرک ھونا بھي ھے ۔ اس کے معني صحيح طور پر يھي ھيں کہ وہ تمام چيزوں کا جو احساس سے متعلق ھيں، جاننے والا ھے جس طرح مسموعات يعني آوازوں کے جاننے کي بناء پر سميع اور مبصرات يعني ديکھنے کي چيزوں کے جاننے سے بصير ھے ۔ يہ عالم ھونے کے مفھوم کے شعبے ھيں ۔ الگ الگ صفتيں نھيں ھيں ۔ نہ يہ سمجھنا صحيح ھے کہ خدا کے جسماني طور پر آنکہ اور کان ھيں جن سے وہ ديکھتا اور سنتا ھے ۔ ايسا ھرگز نھيں ھے ۔
۶۔مريد: قدرت کو علم اور مصالح کے مطابق صرف کرنے کي بنا پر وہ مُريد ھے يعني ارادہ کے ساتھ جو چاھتا ھے کرتا ھے اور جو نھيں چاھتا نھيں کرتا ۔
۷۔متکلم: اُ س کے متکلم ھونے کے يہ معني نھيں کہ وہ زبان و دھن سے کلام کرتا ھے بلکہ اپني قدرت سے اپنے علم کے مطابق جب چاھتا ھے اپني طرف نسبت کے ساتھ کلام پيدا کر ديتا ھے ۔
صفات سلبيہ
صفات سلبيہ يعني نقائص سے پوري طرح بري ھونا ، اس کے تحت جو کچھ باتيں آئيں انھيں صفات سلبيہ کھتے ھيں ۔ اس ميں چند باتيں جو خصوصيت کے ساتھ سمجھنے کي ھيں حسب ذيل ھيں :
۱۔ خدا کا کوئي شريک نھيں ۔ يہ اصل توحيد ھے ۔ اس کا ثبوت اسي سے ظاھر ھے کہ خدا ايک کامل ” وجود “ ھے ۔ اگر اُس کے ساتھ دوسرے کي ضرورت ھو تو وہ کامل نہ رھے گا ، ناقص ھو جائے گا ۔
اسے يوں بھي کھا جا سکتا ھے کہ اگر دو کي طاقت کا مجموعہ ايک سے زيادہ نھيں ھے تو دوسرا بيکار محض ھے اور اگر زيادہ ھے تو ھر ايک ناقص اور محدود ھيں اور خدائي کے قابل نھيں ھے ۔
۲۔ خدا مرکب نھيں ھے يعني اُ س کے اجزاء نھيں پائے جاتے کيونکہ اس صورت ميں وہ اُن اجزاء کا محتاج ھو گا اور اجزاء اُس سے مقدم ھوں گے ۔ لھذا وہ سب کا پيدا کرنے والا نھيں قرار پاسکے گا ۔
۳۔ خدا جسميت نھيں رکھتا کيونکہ ھر جسم کا مرکب ھونا ضروري ھے اور يہ معلوم ھو چکا کہ خدا مرکب نھيں ھے ۔
۴۔ خدا کسي مکان اور سمت ميں نھيں ھے کيونکہ اس صورت ميں وہ محدود ھو جائے گا اور محتاج قرار پائے گا اور اس کي ذات پابندي و احتياج سے بري ھے ۔
۵۔ حلول و اتحاد نھيں ھو سکتا ۔ اس کے معني يہ ھيں کہ ايک چيز دوسرے ميں ھو کر پائي جائے اس طرح کہ اُ س کي صفت بن جائے جيسے رنگ و بو پھول ميں يا دو چيزيں اس طرح ايک ھو جائيں کہ ايک طرف اشارہ عين دوسرے کي طرف اشارہ قرار پائے ۔ خدا کي ذات اس سے بالکل بري ھے کيونکہ اُس صورت ميں وہ محتاج اور محدود ھو جائے گا اور ناقص کے ساتھ يکساں بلکہ ايک ھو کر خود بھي ناقص ھو جائے گا ۔
۶۔ وہ مرئي نھيں ھے ۔ يعني اُ س کو آنکھوں سے ديکھنا نا ممکن ھے کيونکہ آنکھوں سے وھي چيز ديکھي جاتي ھے جو سامنے ھو اور رنگ و شکل رکھنے والا جسم ھو ۔
خدا نہ جسم ھے ، نہ رنگ و شکل رکھتا ھے ، نہ کسي خاص سمت ميں محدود ھے اس لئے اُس کے ديدار کا اعتقاد صحيح نھيں ھے ۔
۷۔ اُس کي ذات ميں تغيرات کا ھونا اور حالتوں ميں تبديلي پيدا ھونا ممکن نھيں ھے کيونکہ يہ پيدا ھونے والي حالت اگر کمال ھے تو اس کي ذات سے جدا نھيں ھے اس لئے ھميشہ سے يہ کمال ثابت ھوگا اور اگر کمال نھيں ھے تو اس کي ذات سے اس کا تعلق نھيں ھو سکتا ۔
بے شک اُ س کے افعال دنيا ميں مصالح کے مطابق مختلف صورتوں سے ظاھر ھوتے رھتے ھيں اور مصلحتوں کي تبديلي سے اُن ميں تبديلياں بھي ھوتي ھيں ۔ انھي کو ” بداء “ کھا جاتا ھے ليکن ان تمام تبديليوں کا علم اُس کو ھميشہ سے ھوتا ھے اس لئے نہ وہ علم کے تغير کا سبب ھيں اور نہ پشيماني و ندامت کا نتيجہ ۔
۸۔ خدا کے صفات اس کي ذات سے عليحدہ نھيں ھيں اس لئے کہ اگر خدا کي صفتيں ذات کے علاوہ ھوں تو خود ذات کمال سے خالي ھو گي اور صفتوں کي محتاج ھو گي پھر اُس کو ان صفتوں سے متصف ھونے کے لئے کسي دوسرے سبب کي ضرورت ھو گي اور اس طرح خدا کي ھستي اپنے کمال ميں غير کي محتاج ھو جائے گي اور اس کے معني يہ ھيں کہ وہ غير اُس سے مقدم ھو گااور اس طرح توحيد کہ جو تمام اُصول کي اصل ھے ، باقي نھيں رہ جائے گي ۔