• صارفین کی تعداد :
  • 4435
  • 1/21/2008
  • تاريخ :

ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں

 

قرآن مجید

ايك شب ابوسفيان ،ابوجہل اور مشركين كے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ايك دوسرے سے چھپ كر آنحضرت (ص) سے قرآن سننے كے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے ميں مشغول تھے اور ہر ايك ، ايك دوسرے سے بالكل بے خبر عليحدہ عليحدہ مقامات پر چھپ كر بيٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تك قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح كى سفيدى نمودار ہوچكى تھى _اتفاق سے سب نے واپسى كے ليے ايك ہى راستے كا انتخاب كيا اور ان كى اچانك ايك دوسرے سے ملاقات ہوگئي اور ان كا بھانڈا وہيں پر پھوٹ گيا انھوں نے ايك دوسرے كوملامت كى اور اس بات پر زورديا كہ آئندہ ايسا كام نہيں كريںگے ، اگر نا سمجھ لوگوں كو پتہ چل گيا تو وہ شك وشبہ ميں پڑجائيں گے _

دوسرى اور تيسرى رات بھى ايسا ہى اتفاق ہوا اور پھروہى باتيں دہرائي گئيں اور آخرى رات تو انھوں نے كہا جب تك اس بات پر پختہ عہد نہ كرليں اپنى جگہ سے ہليں نہيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور پھر ہر ايك نے اپنى راہ لى _اسى رات كى صبح اخنس بن شريق نامى ايك مشرك اپنا عصالے كر سيدھا ابوسفيان كے گھر پہنچا اور اسے كہا : تم نے جو كچھ محمدسے سناہے اس كے بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے ؟

اس نے كہا:خدا قسم : كچھ مطالب ايسے سنے ہيں جن كا معنى بخوبى سمجھ سكاہوں اور كچھ مسائل كى مراد اور معنى كو نہيںسمجھ سكا _ اخنس وہاںسے سيدھا ابوجہل كے پاس پہنچا اس سے بھى وہى سوال كيا : تم نے جو كچھ محمد سے سنا ہے اس كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟

ابوجہل نے كہا :سناكياہے، حقيقت يہ ہے كہ ہمارى اور اولاد عبدمناف كى قديم زمانے سے رقابت چلى آرہى ہے انھوں نے بھوكوں كو كھانا كھلايا، ہم نے بھى كھلايا ، انھوں نے پيدل لوگوں كو سوارياں ديں ہم نے بھى ديں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ كيا، سوہم نے بھى كيا گويا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے_جب انھوں نے دعوى كيا ہے كہ ان كے پاس وحى آسمانى بھى آتى ہے تو اس بارے ميں ہم ان كے ساتھ كس طرح برابرى كرسكتے ہيں ؟ اب جب كہ صورت حال يہ ہے تو خداكى قسم ہم نہ تو كبھى اس پر ايمان لائيں گے اور نہ ہى اس كى تصديق كريں گے _اخنس نے جب يہ بات سنى تو وہاں سے اٹھ كر چلاگيا (1)

جى ہاں: قرآن كى كشش نے ان پر اس قدرا ثركرديا كہ وہ سپيدہ صبح تك اس الہى كشش ميں گم رہے ليكن خود خواہى ، تعصب اور مادى فوائدان پر اس قدر غالب آچكے تھے كہ انھوں نے حق قبول كرنے سے انكار كرديا _اس ميں شك نہيں كہ اس نورالہى ميں اس قدر طاقت ہے كہ ہر آمادہ دل كو وہ جہاں بھى ہو، اپنى طرف جذب كرليتا ہے يہى وجہ ہے كہ اس (قرآن)كا ان آيات ميں ''جہاد كبير'' كہہ كر تعارف كروايا گيا ہے_(2)

ايك اور روايت ميں ہے كہ ايك دن ''اخنس بن شريق'' كا ابوجہل سے آمناسامنا ہوگيا جب كہ وہاں پر اور كوئي دوسرا آدمى موجود نہيںتھا_تو اخنس نے اس سے كہا :سچ بتائو محمد سچاہے ،ياجھوٹا ؟قريش ميں سے كوئي شخص سواميرے اور تيرے يہاں موجود نہيں ہے جو ہمارى باتوں كو سنے _

ابوجہل نے كہا: وائے ہو تجھ پر خداكى قسم وہ ميرے عقيدے ميں سچ كہتا ہے اور اس نے كبھى جھوٹ نہيں بولا ليكن اگر يہ اس بات كى بناہو جائے كہ محمد كا خاندان سب چيزوں كو اپنے قبضہ ميں كرلے، حج كا پرچم ، حاجيوں كو پانى پلانا،كعبہ كى پردہ دارى اور مقام نبوت تو باقى قريش كے لئے كيا باقى رہ جائےگا_ (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(1)سيرت ابن ہشام جلداول ص337 ، اور تفسير فى ظلال القر،آن جلد6 ص 173

(2)تفسير نمونہ ج 8 ص 144

(3)مندرجہ بالاروايات تفسير المنار اور مجمع البيان سے سورہ انعام ايت 33/ كے ذيل ميں بيان كردہ تفسير سے لى گئي ہيں