قوم تُبّع کے بارے میں
قوم تُبّع
سر زمين يمن جزيرۃالعرب ميں واقع ہے اور اس كا شمار دنيا كى ايسى آباد اور بابركت زمينوں ميں ہوتا ہے، جو ماضى ميں درخشندہ تمدن كى حامل تھي، اس سر زمين پر ايسے بادشاہ حكومت كيا كرتے تھے جن كا نام ""تُبّع""(جس كى جمع ""تبايعہ"" ہے) تھا چونكہ لوگ ان كى ""اتباع"" كيا كرتے تھے، اس لئے ان كو"" تُبّع"" كہتے تھے يا پھر اس لئے كہ وہ كئي پشتوں تك يكے بعد ديگرے بر سر اقتدار آتے رہے_
قوم تُبّع كون تھي؟
قرآن مجيد ميں صرف دو مقام پر"" تُبّع""كا لفط استعمال ہوا ہے ،ايك تو سورہ دخان آيت 37ميں اور دوسرے سورہ ""ق ""كى 14ويں آيت ميں جہاں پر ارشاد ہوتا ہے :
""گھنے درختوں كى سر زمين والى قوم شعيب اور قوم تبع ،ايك نے خدا كے رسولوں كو جھٹلايا تو خدا كى تہديد بھى ان كے بارے ميں سچ ثابت ہوگئي""_
""تبع""يمن كے بادشاہوں كا ايك عمومى لقب تھا،جس طرح ايران كے بادشاہوں كو كسرى ،ترك سلاطين كو خاقان ،مصر كے بادشاہون كو فرعون اور روم كے شہنشاہوں كو قيصر كہا جاتا تھا_
يمن كے بادشاہوں كو""تبع""يا تو اس لئے كہا جاتا تھا كہ يہ لوگوں كو اپنى پيروى كى دعوت ديا كرتے تھے ،يا پھر اس كے لئے كہ وہ يكے بعد ديگرے بر اہ مملكت ہوا كرتے تھے _
بظاہر تو يہى معلوم ہوتا ہے كہ قران مجيد نے يمن كے تمام بادشاہوں كى بات نہيں كي،بلكہ كسى خاص بادشاہ كا ذكر كيا ہے (جيسا كہ حضرت موسى عليہ السلام كے معاصر خاص فرعون كى بات كى ہے )_
بعض روايات ميں ايا ہے كہ اس كا نام ""اسعد ابو كرب ""تھا_
بعض مفسرين كا يہ نظريہ ہے كہ وہ بذات خود حق طلب اور صاحب ايمان شخص تھا،انھوں نے قران مجيد كى دونوں ايات سے استدلال كيا ہے، كيونكہ قران پاك كى مذكورہ دونو ں ايا ت ميں اس كى ذات كى مذمت نہيں كى گئي بلكہ اس كى قوم كى مذمت كى گئي ہے _
پيغمبر اسلام (ص) سے نقل كى جانے والى روايت بھى اسى بات كى شاہد ہے ،كيونكہ آنحضرت (ص) فرماتے ہيں: ""تبع"" كو برا مت كہو كيونكہ وہ ايمان لاچكا تھا_""
تُبّع مدينہ كے نزديك
ايك اور روايت ميں ہے كہ جب ""تبع"" اپنے كشور كشائي كے ايك سفر ميں مدينہ كے قريب پہنچا تو وہاں كے ساكن يہودى علماء كو پيغام بھيجا كہ اس سرزمين كو ويران كرنا چاہتا ہوں تاكہ كوئي بھى يہودى اس جگہ نہ رہنے پائے ،اور عرب قانون حكم فرماہو_
يہوديوں كا سب سے بڑا عالم ""شامول ""تھا،اس نے كہا :يہ وہ شہر ہے جو حضرت اسماعيل كى نسل سے پيد ا ہونے والے ايك پيغمبر كى ہجرت گاہ بنے گا،پھر اس نے پيغمبر اسلام (ص) كى چند صفات گنوائيں، متبع جس كے ذہن ميں گويا اس بارے ميں كچھ معلومات تھيں اس نے كہا :""تو پھر اس شہر كو ويران نہيں كروں گا""_
حتى كہ ايك اور روايت ميں اسى داستان كے ذيل ميں يہ بات بھى بيان ہوئي ہے كہ اس نے ""اوس""اور ""خزرج ""كے بعض قبائل كو جو اس كے ہمراہ تھے حكم ديا كہ وہ اسى شہر ميں رہ جائيں اور جب پيغمبر موعود ظہور كريں تو وہ ان كى امداد كريں اوراپنى اولاد كو بھى وہ اسى بات كى وصيت كرتا رہا ،حتى كہ اس نے ايك
خط بھى تحرير كر كے اس كے سپرد كر ديا ،جس ميں پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان لانے كا اظہار كيا گيا تھا_
تُبّع شہر مكہ ميں
صاحب ""اعلام القران ""رقمطراز ہيں :
""تبع ""يمن كے عالمگيربادشاہوں ميں سے ايك تھا كہ جس نے ہندوستان تك فوج كشى كى اور اس علاقے كى تمام حكومتوں كو اپنى زير نگرانى كر ليا، اپنى فوج كشى كى ايك مہم كے دوران ميں وہ مكہ معظمہ پہنچا اور اس نے خانہ كعبہ كے منہدم كر نے كا ارادہ كر ليا ،ليكن وہ ايك ايسى بيمارى ميں مبتلا ہو گيا كہ طبيب اس كے معالجے سے عاجز اگئے _
اس كے ہمركابوں ميں كچھ اہل علم بھى موجود تھے جس كا سرپرست"" شامول"" نامى ايك حكيم تھا،اس نے كہا:اپ كى بيمارى كا اصل سبب خانہ كعبہ كے بارے ميں بُرى نيت ہے _
""تبع""اپنے مقصد سے باز اگيا اور نذر مانى كہ وہ خانہ كعبہ كا احترام كرے گا اور صحت ياب ہونے كے بعد خانہ كعبہ پر يمانى چادر كا غلاف چڑھائے گا _
دوسرى تاريخوں ميں بھى خانہ كعبہ پر غلاف چڑھانے كى داستان منقول ہے جو تو اتركى حد تك پہنچى ہوئي ہے يہ فوج كشى اور كعبہ پر غلاف چڑھانے كا مسئلہ 5 عيسوى ميں وقوع پذير ہوا ،اب بھى شہر مكہ ميں ايك جگہ موجود ہے جس كا نام ""دارالتبابعہ"" ہے_
بہرحال يمن كے بادشاہوں (تبابعہ يمن)كى داستان كا ايك بہت بڑا حصہ تاريخى لحاظ سے ابہام سے خالى نہيں ہے ،كيونكہ ان كى تعداد اور ان كى حكومت كے عرصہ كے بارے ميں زيادہ معلومات مہيا نہيں ہيں، اس بارے ميں بعض متضاد روايتيں بھى ملتى ہيں ،جو كچھ اسلامى روايات ميں ہے وہ تفسيرى مواد ہو يا تاريخى اور حديثى ،صرف بادشاہ كے بارے ميں ہے ،_جس كا قران ميں دو مرتبہ ذكر ہوا ہے _