فقيہ کي ولايت(3)
فقیہ کون ھے ؟
فقیہ وہ ھوتا ھے ، جو خدا کے احکام اور دین کے مسائل کو قرآن کی آیتوںاور روایات سے سمجھتے ھوئے ان سے استدلال کرے یعنی دلیل لائے اور جو بھی مسئلہ پیش آئے اس میں دین اور مذھب کے نظریہ کو پھچان سکے اور اسے بیان کر سکے ۔ دین شناسی کے اس مقام تک پھونچنے کے لئے ضروری ھے کہ ایک شخص ایک طولانی مدت تک حوزہ علمیہ میں ان علوم کو حاصل کرے جو دین کے مسائل میں ماھر ھونے کے لئے اسکی مدد کر سکیں ۔
جو اس درجہ اور مقام تک پھونچ جاتا ھے کہ اسلامی مسائل کو عقلی و نقلی استدلال کے ذریعہ سمجھ جائے ، اسے مجتھد اور ” فقیہ “ کھتے ھیں اور علم اور فقہ کے اس درجہ اور مرتبہ کو ” اجتھاد “ کھتے ھیں ۔
عموماً ھر شخص کسی بھی مسئلہ میں اس مسئلہ کا علم رکھنے والے اور ماھر شخص کی طرف رجوع کرتا ھے ۔ مثلاً بیماری میں ڈاکٹر ، مکان کی تعمیر میں انجینیر اور مستری اور مشینوں کے خراب ھوجانے کی صورت میں ، اس کا علم اور مہارت رکھنے والے شخص کی طرف رجوع کیا جاتا ھے ۔ سامنے کی بات ھے کہ اگر انسان خود دین میں ماھر نہ ھو اور اس کا علم نہ رکھتا ھو ، تو اپنا دینی وظیفہ جاننے اوراس پر عمل کرنے کے لئے فقھا کی طرف رجوع کرے اور ان سے سوال کرے ۔ شریعت کے مسائل میں شرعی دلیلوں کی بنیاد پر مجتھد کی نظر کو فتویٰ کھتے ھیں اور لوگوں کے فقھا کی طرف رجوع کرنے اور انکے فتوے پر عمل کرنے کو ” تقلید “ کھتے ھیں ۔
جس طرح لوگ ایک دریا اور سمندر کے سفر میں اپنے اختیارات کو جھاز کے کیپٹن کے حوالہ اور ھوائی جھاز کے سفر میں اپنے اختیار کو پائیلٹ کے سپرد کر دیتے ھیں اسی طرح دینی مسائل اور شرعی فرائض میں ھم اپنے فقھا کے فتوؤں پر عمل کرتے ھیں اور انکی تقلید کرتے ھیں ۔ فقھا شرعی مسائل میں ھمارے ”مرجع “ ھیں یعنی انکی طرف ھم سوال کے لئے جاتے ھیں اسی لئے انھیں ”مرجع تقلید “ کھتے ھیں ۔
اس کے علاوہ جس طرح ایک شھر میں بھت سے ڈاکٹر ھوتے ھیں لیکن ہم کچھ ھی کے پاس علاج کے لئے جاتے ھیں ۔ اسی طرح شریعت کے مسائل میں اھل نظر اور مجھتد بھی زیادہ ھو سکتے ھیں ممکن ھے کہ ایک ھی زمانہ میں سینکڑوں مجتھد یعنی اھل نظر حضرات موجود ھوں لیکن جنکی طرف لوگ رجوع کرتے ھیں انکی تعداد کم ھی ھوتی ھے ۔ اس لئے ھم کھہ سکتے ھیں کہ سبھی مجتھد ” مرجعیت“ کے درجہ اور مقام تک نھیں پھونچتے ھیں ۔
اس کے علاوہ عقلی اور واضح دلیل یہ ھے کہ ائمہ معصومین (ع) کا مخصوص حکم اس بارے میں موجود ھے کہ ھم دینی مسائل میں فقھا کی طرف رجوع کریں ، انکی طرف جو ھماری روایات کا علم رکھتے ھیں اور خدا کے حلال اور حرام کو پھچانتے ھیںاور ھماری احادیث سے آشنا ھیں ۔ یہ لوگ ھماری طرف سے تم لوگوں پر حجت ھیں ۔
ھم چونکہ خدا وند متعال کے بندے اور مسلمان ھیں اس لئے ھم جس دینی وظیفہ کو اور ذمہ داری کو انجام دیں ، اسکے لئے ضروری ھے کہ خدا کے فرمان کے مطابق ھو ۔ ھم خدا کے حکم کو فقط قرآن ، پیغمبر اور ائمہ معصومین (ع) کے اقوال کے ذریعہ سمجھ سکتے ھیں ۔ علمائے دین بھی جو علم دین حاصل کرتے ھیں وہ خدا ، پیغمبر اور ائمہ معصومین (ع) کے اقوال اور احادیث کے ذریعہ ھی حاصل کرتے ھیں ۔ چونکہ ھم اس زمانہ میں پیغمبر اور امام معصوم (ع) تک براہ راست نھیں پھونچ سکتے اس لئے ، ائمہ معصومین (ع) نے ھماری رھنمائی فقھائے دین کی طرف کی ھے اور انکی نظر اور فتوے کو ھمارے لئے حجت قرار دیا ھے ۔ اس طرح ھم مرجع تقلید کے فتوے پر عمل کرکے مطمئن ھو سکتے ھیں کہ ھم نے اپنے دینی وظیفہ کو انجام دے دیا ھے اور ھم اس سے سبکدوش ھو گئے ھیں کیونکہ ھم ثبوت اور سند رکھتے ھیں ۔ ھماری حجت اور ثبوت ، فقھا کا فتویٰ ھے جو ائمہ معصومین (ع) کی جانب سے ھمارے لئے معتبر قرار دیا گیا ھے ۔ احادیث کی کتابوں میں ، ان روایات کو جو اس دستور العمل کو بیان کرتی ھیں ۔ ” مقبولہ عمر بن حنظلہ “ کھتے ھیں ۔
امام صادق (ع) سے روایت ھے کہ جو شخص بھی میری حدیث تم سے نقل کرے ، حلال اور حرام کا پابند ھو اور ھمارے احکام کی شناخت رکھتا ھو ، میں نے اس شخص کو یقینا تمھارے اوپر حاکم قرار دیا ھے ۔ اس لئے جب بھی وہ ھمارے حکم کے مطابق حکم کرے اور کوئی شخص اسکے حکم پر عمل نہ کرے تو اس نے خدا وند متعال کے حکم کو سبک جانا اور ھمارا انکار کیا ھے اور جس نے ھمارا انکار کیا ، اس نے خدا وند متعال کا انکار کیا ھے (۱)
اس بات پر توجہ کرتے ھوئے کہ کبھی کبھی کوئی تازہ اور نیا مسئلہ بھی پیش آجا تا ھے جس کا روایت میں کوئی خاص حکم موجود نھیں ھوتا ، دین کے ماھر اور علم رکھنے والے فقھا ، اس تازہ اور نئے مسئلہ کے لئے لوگوں کا شرعی وظیفہ بیان کر تے ھیں اور یہ کہ انکی نظر اور فتویٰ ، نئے پیدا ھونے والے مسائل میں بھی ھمارے لئے حجت ھے ، اس بارے میں بھی ائمہ معصومین (ع) سے روایت موجود ھے ۔ امام زمانہ(ع) فرماتے ھیں : ” نئے واقعات اور تازہ مسائل میں ھماری احادیث کو نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو ، کیونکہ فقھا میری طرف سے تمھارے اوپر حجت ھیں اور ھم انکے اوپر خدا کی طرف سے حجت ھیں “ (۲)
نئے پیدا ھونے والے مسائل کیا ھیں جن کا دائرہ بھت وسیع ھے ۔ جو سیاسی ، اقتصادی اور سیاسی مسائل کو بھی اپنے اندر شامل کرتے ہیں ۔
امام زمانہ (ع) کی مراد توضیح المسائل میں بیان کئے گئے شرعی مسائل اور ھمارے فردی مسائل و ذمہ داریاں ھی نھیں ھیں بلکہ انکی مراد اور منشاء اس سے کھیں وسیع تر ھے ۔
اس لئے کہ وھی غیبت کے زمانہ میں ” ولایت “ رکھ سکتا ھے اور اسی کی طرف لوگ مختلف مسائل میں رجوع کر سکتے ھیں جو دین کے بارے میں کافی آگاھی اور علم رکھتا ھو ۔ زمانہ غیبت میں مسلمانوں کے حاکم کے لئے علمی صلاحیت اور دین شناسی کا ھونا ، اس منصب کی اھم صفات میں سے ایک صفت ھے ، جس کا حامل ھونا اس کے لئے ضروری
ھے ۔ ان سب کے علاوہ ایک اھم شرط جو مسلمانوں کے پیشوا کے لئے لازم ھے وہ ” عدالت “ھے یعنی صرف عاقل ، عالم اور خدا کے احکام سے آگاھی ھونا ھی کافی نھیں ھے ۔ صرف وھی شخص بندگان خدا کی رھبری کی صلاحیت رکھتا ھے ، جو متقی ، خدا کا خوف رکھنے والا ، با ایمان ، پاکیزہ اور عادل ھو ۔ ان شرائط کو اخلاق اور تقویٰ کی شرطیں کھتے ھیں ۔
جو شخص دنیا پرست ھو ، اپنی خواھیشات اور نفس کی پیروی کرتا ھو ، ریا کار اور بے تقویٰ ھو ،خدا کے احکام کی پابندی نہ کرتا ھو ، پرھیز گاری ، خلوص اور دینداری نہ رکھتا ھو ، تو ایسا شخص لوگوں کا مرجع ھونے کی صلاحیت نھیں رکھتا اور وہ مسلمانوں کا رھبر اور پیشوا بھی نھیں ھو سکتا ھے ۔ یہ مقام اور منصب اسی شخص کے لئے مناسب ھے جو اپنی خواھشات اور نفس کی پیروی نہ کرتا ھو اور با تقویٰ ھو ، کیونکہ سماج اور لوگوں کے دین اور دنیا کا اختیار اسی کو دیا جاتا ھے ۔ اگرلوگوں کا پیشوا اور رھبر تقویٰ ، پاکدامنی اور خلوص نھیں رکھتا ھو گا ، تو لوگوں کے دین اور دنیا دونوں ھی کو خطرہ لاحق ھو گا اور کبھی بھی جبران نہ ھونے والا خسارہ اور نقصان ھو جائے گا ۔ اس بارے میں بھی امام حسن عسکری (ع) سے حدیث نقل ھوئی ھے آپ نے فرمایا ھے : فقھا میں جو اپنے دین کے نگھبان ھوں اور اپنے نفس کی پیروی نہ کرتے ھوں ، لوگوں کے لئے ضروری ھے کہ انھی میں سے کسی کی تقلید کریں ۔ (۳)
حوا لے
۱۔وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص ۹۹
۲۔وسائل الشیعہ ج ۱۸ ،ص ۱۰۱
۳۔وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص ۹۴