اقوال 461 تا 470
بہت سے لوگ اس وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہاںکے بارے میں
اچھے خیالات کا اظہا ر کیاجاتاہے .
دنیا ایک دوسری منزل کے لےے پید ا کی گئی ہے نہ اپنے (بقاودوام کے) لےے .
بنی امیہ کے لےے ایک مرودارواد (مہلت کا میدان )ہے جس میں وہ دوڑ لگا رہے ہیں جب ان میں باہمی اختلاف رونما ہو تو پھر بجو بھی ان پر حملہ کریں تو ان پر غالب آجائیں گے .
(سید رضی فرماتے ہیں کہ)مرودار وادسے مفعل کے وزن پر ہے اور اس کے معنی مہلت و فرصت دینے کے ہیں اور یہ بہت فصیح اور عجیب و غریب کلام ہے گویا آپ علیھ السّلامنے ان کے زمانہ مہلت کو ایک میدان سے تشبیہہ دی ہے جس میں انتہا کی حد تک پہنچنے کے لےے دوڑے جائیں گے تو ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا .
یہ پیشن گوئیبنیامیہ کی سلطنت کے زوال و الفرض کے متعلق ہے جو صر ف بحرف پوری ہوئی .اس سلطنت کی بنیاد معاویہ ابن ابی سفیان نے رکھی اور نوے برس گیارہ مہینے اور تیرہ دن کے بعد 231ئھج میں مروان الحمار پر ختم ہوگئی بنیامیہ کا دور ثلم و وستم اور قہر و استبداد کے لحاظ سے آپ اپنی نظیر تھا .اس عہد کے مطلق العنان حکمرانوں نے ایسے ایسے مظالم کئے کہ جن سے اسلام کا دامن داغدار , تاریخ کے اوراق سیاہ اور روح انسانیت مجروح نظر آتی ہے .انہوں نے اپنے شخصی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لےے ہر تباہی و بربادی کو جائز قرار دے لیا تھا مکہ پر فوجوں کی یلغا ر خانہ کعبہ پر آگ برسائی ,مدینہ کو اپنی بیہمانہ خواہشوں کا مرکز بنایا اور مسلمانوں کے قتل عام سے خون کی ندیاں بہا دیں .آخر ان سفاکیوں اور خونریزیوںکے نتیجہ میں ہر طرف بغاوتیں اور سازشیں اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے اندرونی خلفشا ر اور باہمی رزم آرائی نے ان کی بربادی کا راستہ ہموار کردیا .اگرچہ سیاسی اضطراب ان میں سے پہلے ہی سے شروع ہوچکا تھا مگر ولید ابن یزید کے دور میں کھلم کھلا نزاع کا دروازہ کھل گیا اور ادھر چپکے چپکے بنی عیاس نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کئے اور مروان الحمار کے دور میں خلافت الہیہ کے نام سے ایک تحریک شروع کردی اور اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لےے انہیں ابو مسلمخراسانی ایسا امیر سپاہ مل گیا جو سیاسی حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے علاوہ فنون حرب میں بھی پوری مہارت رکھتا تھا .چنانچہ اس نےخراسان کو مرکز قرار دے کر امو یوں کے خلاف ایک جال بچھادیا اور عباسیوں کو برسر اقتدار لانے میں کامیاب ہوگیا .
یہ شخص ابتد ائ میں گمنام اور غیر معروف تھا.چنانچہ اسی گمنامی وپستی کی بنا پر حضرت نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بجو سے تعبیر کیا ہے کہ جو ادنیٰ و فرومایہ لوگوں کے لےے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے .
انصار کی مدح و توصیف میں فرمایا کدا کی قسم انہوںنے اپنی خوش حالی سے اسلام کی اس طرح تربیتکی ,جس طرح یکسالہ بچھڑے کو پالا پوسا جاتا ہے .اپنے کریم ہاتھو ں اور زبانوں کے ساتھ .
آنکھ عقب کے لےے تسمہ ہے .
سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ کلام عجیب و غریب استعارات میں سے ہے گویا آپ نے عقب کو ظرف سے اور آنکھ کو تسمہ سے تشبیہہ دی ہے اور تسمہ کھول دیا جائے تو برتن میں جو کچھ ہوتا ہے .رک نہیںسکتا مشہور واضح ہے کہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے .مگر کچھ لوگوں نے اسے امیر المومنین علیہ السلام سے بھی روایت کیا ہے چنانچہ مبرد نے اس کا اپنی کتاب »المقتضب«باب اللفظ بالحروف میں ذکر کیا ہے اور ہم نے اپنی کتاب »مجازات الآثارالنبویہ«میں اس استعار ہ کے متعلق بحث کی ہے
ایک کلام کے ضمن آپ نے فرمایا:
لوگوں کے امور کا ایک حاکم و فرماں روا ذمہ دار ہوا جو سیدھے پر چلا اور دوسروں کو اس راہ پر لگایا .یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ ٹیک دیا.
لوگوں پر ایک ایسا گزند پہنچانے والا دور آئے گا ,جس میں مالدار اپنے مال میں بخل کرے گا حالانکہ اسے یہ حکم نہیں . چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ »آپس میں حسن سلوک کو فراموش نہ کرو «اس زمانہ میں شریر لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور نیکو کار ذلیل خوار سمجھے جائیں گے اور مجبور اور بے بس لوگوں سے خرید و فروخت کی جائے گی.حالانکہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے مجبور و مضطر لوگوں سے (اونے پونے )خریدنے کومنع کیا ہے .
مجبور و مضطر لوگوں سے معاملہ عموما ًاس طرح ہوتا ہے کہ ان کی احتیاج و ضرور ت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ان سے سستے داموں چیزیں خرید لی جاتی ہیں ,اور مہنگے داموں ان کے ہاتھ فروخت کی جاتی ہیں .اس پریشا ن حالی میں ان کی مجبوری و بے بسی سے فائدہ اٹھانے کی کوئی مذہب اجازت نہیںدیتا اورنہ آئین اخلاق میں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ دوسرے کی اضطراری کیفیت سے نفع اندوزی کی راہیں نکالی جائیں .
میرے بارے میں دوقسم کے لوگ ہلاکت میں مبتلا ہوں گے .ایک محبت میں حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا جھو ٹ و افترا باندھنے والا .
سید رضی کہتے ہیں کہ حضر ت کایہ قول اس ارشاد کے مانند ہے کہ میرے بارے میں دوقسم کے لوگ ہلاک ہوئے ایک محبت میں غلو کرنے والا ,اور دوسرا دشمنی و عناد رکھنے والا .
حضرت سے توحید و عدل کے متعلق سوال کیاگیا توآپ نے فرمایا:
توحید یہ ہے کہ اسے اپنے وہم و تصور کا پابند نہ بناؤاور یہ عدل ہے کہ اس پر الزامات نہ لگاؤ.
عقیدہ توحید اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس میں تنزیہ کی آمیزش نہ ہو .یعنی اسے جسم وصورت اور مکان و زمان کے حدود سے بالا ترسمجھتے ہوئے اپنے اوہام و ظنون کا پابند نہ بنایا جائے کیونکہ جسے اوہام و ظنون کا پابند بنایا جائے گا ,وہ خدا نہیں ہوگا بلکہ ذہن انسانی کی پیداوار ہوگا اور ذہنیقوتیں دیکھی بھالی ہوئی چیزوں ہی میں محدود رہتی ہیں .لہٰذا انسان جتنا گڑھی ہوئی تمثیلوں اور قوت و اہمہ کی خیال آرائیوں سے اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا ,اتنا ہی حقیقت سے دور ہوتا جائے گا .چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے ,
جب بھی تم اسے اپنے تصور و وہم کا پابند بناؤگے وہ خدا نہیں رہے گا بلکہ تمہاری طرح کی مخلوق اور تمہاری ہی طر ف پلٹنے والی کوئی چیز ہوگی .
اور عدل یہ ہے کہ ظلم و فبح کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں ان کی ذات باری سے نفی کی جائے اور اسے ان چیزوں سے متہم نہ کیا جائے کہ جو بری اور بے فائدہ ہیں اورجنہیں عقل اس کے لےے کسی طرح تجویز نہیںکرسکتی .چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے .
تمہارے پروردگار کی بات سچائی اور عدل کے ساتھ پوری ہوئی کوئی چیز اس کی باتوں میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی .
حکمت کی بات سے خاموشی اختیار کرنا کوئی خوبی نہیں جس طرح جہالت کے ساتھ بات کرنے میں کوئی بھلائی نہیں .